• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب اس سلسلے میں کوئی دو رائے نہیں ہیںکہ موجودہ مردم شماری شدید طور پر متنازعہ ہو چکی ہے‘ یہ متنازعہ سب سے زیادہ سندھ میں ہے‘ کراچی کی دو جماعتوں کو اعتراض یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں مردم شماری درست طریقے سے نہیں ہورہی ، دوسری طرف سندھ کی ساری قوم پرست جماعتوں بشمول سندھ کے متعدد محققین کوبھی اس مردم شماری پر شدید اعتراضات ہیں‘ سندھ کی یہ قوم پرست جماعتیں اس حد تک موجودہ مردم شماری سے متنفر ہیں کہ گزشتہ دو ماہ سے سندھ بھر میں ان کی طرف سے ایک شہر سے دوسرے شہر ،اس مردم شماری کے خلاف مارچ کیا گیاجبکہ کئی تنظیموں نےلانگ مارچ بھی کئے ہیں، یہاں تک کہ کچھ تنظیموں کی طرف سے سندھ کے کئی اضلاع میں مختلف دنوں پر مکمل ہڑتال بھی کی گئی ، اکثر قوم پرست تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ اگر مردم شماری کو درست طور پر جاری نہ رکھا گیا تو سندھ کے عوام اس کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے‘ ان قوم پرست تنظیموں کی طرف سے اس مردم شماری پر سنگین اعتراضات کئے جارہے ہیں ،ان میں سے چند اعتراض یہ ہیں کہ مردم شماری دس سال کے بعد ہونا تھی مگر چند ’’خود غرض‘‘ حلقوں کے مطالبے پر یہ مردم شماری 5 سال پہلےکی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ان تنظیموں کی طرف سے ایک سنگین اعتراض یہ بھی کیا جارہا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے سندھ کے مختلف علاقوںمیں تقریباً 2کروڑ افراد بے گھر ہوئےہیں، ان کے گھر گرچکے ہیں مرد، عورتیں اور ان کے بچے آسمان کے نیچے دن رات گزار رہے ہیں، ان تنظیموں اورکئی محققین کا مطالبہ ہے کہ جب تک یہ لوگ واپس اپنے گھروں میں آباد نہیں ہوجاتے سندھ میں کی جانے والی مردم شماری سندھ کے لوگوں کو قبول نہیں ہوگی، ان تنظیموں اور بعض حلقوں کی طرف سے ایک سنگین اعتراض یہ بھی کیا جارہا ہے کہ جب تک کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں آباد غیر قانونی پناہ گزینوں کو مردم شماری سے خارج نہیں کیا جاتا سندھ کے عوام کو یہ مردم شماری قبول نہیں، اس مرحلے پر میں یہ یاد دلاتا چلوں کہ جب جنرل پرویز مشرف ملک کے سربراہ تھے تو اس وقت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ’’کراچی بدامنی کیس ‘‘ میں جو آرڈر جاری کیا اس میں واضح کیا گیاتھا کہ کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی پناہ گزین آباد ہیں۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیاتھا کہ فوری طور پر ان غیر قانونی پناہ گزینوں کو کیمپوں میں منتقل کیا جائے اور پھر فوری طور پر ان کو اپنے اپنے ملکوں میں واپس بھیجا جائے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود نہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا اور نہ ہی صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس انتہائی اہم حکم کا کوئی نوٹس لیا ۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ نہ صرف کراچی بلکہ سارے سندھ میں لاکھوں غیر قانونی پناہ گزین آباد ہیں جن میں بڑی تعداد افغانیوں کی ہے مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا‘ سارے سندھ کا دورہ کرنے کے بعد یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ سندھ یا تو غیر ملکیوں کی کالونی بن چکا ہے یا بننے والا ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو کیا سندھ کا کوئی بھی باشندہ اس صورتحال میں ہونے والی مردم شماری کو قبول کرے گا؟۔ سندھ کے محققین کو De-Facto ٹرم بھی قبول نہیں اور نہ ہی اس بنیاد پر کی جانے والی مردم شماری انہیں قبول ہوگی اگر دیگر صوبوں کے افراد سندھ کے کسی علاقے میں وقتی طور پر رہتے ہیں تو نہ ان کو سندھ کا ڈومیسائل جاری ہونا چاہئے اور نہ انہیں سندھ کی مردم شماری کا حصہ بنایا جانا چاہئے۔

سندھ کی جو قوم پرست جماعتیں یہ موقف اختیار کرتی رہی ہیں اور اس سلسلے میں پریس کانفرنس، جلسے یا ایک شہر سے دوسرے شہر تک احتجاجی مارچ کراتی رہی ہیں ان میں سندھ یونائٹیڈ پارٹی جس کے سربراہ سید جلال شاہ ہیں، سندھ ترقی پسند پارٹی جس کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی ہیں، جئے سندھ محاذ جس کے سربراہ ریاض چانڈیو،جئے سندھ قومی محاذ (بشیر قریشی گروپ)، آریسر گروپ، قومی عوامی تحریک جس کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو ہیں اور عوامی تحریک (رسول بخش پلیجو گروپ) جس کے سربراہ قادر رانٹو ہیں جبکہ اس دوران سندھ کی حکمراںپیپلز پارٹی بھی خاموش نہیں رہی،اس ایشو پر پی پی کے رہنما بھی مختلف مواقع پر بیان جاری کرکےمردم شماری پر اعتراضات کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے 18 مئی کوصوبائی وزیروں کےہمراہ چیف منسٹر ہائوس میں ایک پریس کانفرنس میں موقف اختیار کیا کہ موجودہ مردم شماری میں سندھ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے کیونکہ سندھ کی 70 لاکھ آبادی کوگِنا ہی نہیں گیا ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے ہر ضلع میں لوگوں کی کم گنتی کی گئی ہے، سندھ کی آبادی 6 کروڑ 44 لاکھ ہے مگر مردم شماری میں 5کروڑ 76 لاکھ آبادی بتائی گئی ہے اور بڑی تعداد میں بلاکس ابھی تک مردم شماری میں شامل ہی نہیں کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2017ء میںہمیں غلط گنا گیا اور اس بار بھی ہمیں اعتماد میں لئے بغیر مردم شماری بند کردی گئی جبکہ پنجاب میں مردم شماری جاری ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین