حالیہ برسوں میں، پاکستان میں نوجوان شہریوں کے بیرون ملک بہتر مواقع کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑنے کے رجحان کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ تعداد حیران کن ہے۔ 2021 میں 225,000 نوجوان پاکستانیوں کے ملک چھوڑنے کے ساتھ، 2022 میں یہ تعداد حیران کن طور پر بڑھ کر 765,000 تک پہنچ گئی۔ اب تک یہ اخراج جاری ہے۔ پاکستان کی خوشحالی، سیاسی استحکام، اور اس کے انمول نوجوانوں کے ضائع ہونے کے امکانات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بلاشبہ، پاکستان کی نوجوان آبادی کے اتنے بڑے حصے کا باہر چلے جانا ملک کے مستقبل کے بارے میں خدشات کو جنم دیتا ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ان کی ہجرت سے کئی اہم شعبوں بشمول تعلیم، کاروبار، جدت اور سماجی و سیاسی معاملات میں ایک خلا پیدا ہوتا جارہا ہے جو کہ ایک بہت بڑے خطرے کی علامت ہے چونکہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کے باصلاحیت افراد کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ان کے لئے ہری بھری چراگاہیں ہیں، نہ تعلیم پہ خرچ کرنا، نہ بنیادی تربیت پہ، نہ اان پر ملک کی ٹیکس کی آمدنی لگانی ہیں الٹا ایسی پکی پکائی فصل جو آتے ساتھ ہی خون پسینہ ایک کردے اور ٹیکس بھی ادا کرے، موجیں ہی موجیں ہیں میزبان ممالک کی۔ دوسری طرف پاکستان ان افراد پہ ایک خطیر رقم اپنے ٹیکس کی آمدنی کا خرچ کرتا ہے ( یعنی فصل تیار کرنے کے مکمل عمل سے گزرتا ہے، فصل تیار ہوچکی ہوتی ہے لیکن پھل کھانے سے پہلے اچھے مستقبل کی لالچ میں اس فصل کو ملک سے باہر روانہ کردیتا ہے)اور فیضیاب دوسرے ممالک ہوتے ہیں۔یوں ملک میں صرف کمزور اور تعلیم سے دور افراد ہی رہ جاتے ہیں۔ یوں پائیدار ترقی کے لیے ضروری مہارتوں اور جدید علوم، جدید تکینک کی کمی کا خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی ملک کی بین الاقوامی سیاسی حیثیت اس کی ترقی کی صلاحیت سے جڑی ہوتی ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر روانگی ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے: کیا پاکستان سیاسی طور پر غیر مستحکم رہے گا؟ جواب کوئی سادہ نہیں ہے۔ اگرچہ ہجرت کچھ سیاسی دباؤ کو عارضی طور پر کم کر سکتی ہے، لیکن یہ موجودہ سیاسی نظام سے مایوسی کی علامت بھی ہے۔ پاکستان کی قیادت کو اپنی نوجوان آبادی میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔ ان کے حب الوطنی کے ساتھ ساتھ ملک سے لگاو اور ملک کے لئے کچھ کر نے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ دنیا کے مختلف کونوں میں پاکستانی نوجوان ( brain drain) مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن اس سے ان کے اپنے ملک فائدہ کے بجائے نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ برین ڈرین کے حامی افراد اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ اس سے ملک میں زر مبادلہ worker remittances کی صورت میں آتا ہے۔ ورکر ریمیٹینسس صرف چند ہی ممالک سے آتا ہے جہاں ہمارے نوجوان کو مستقل سکونت (permanent residence ) کی اجازت نہیں ملتی۔ بقیہ ہر ملک ان کو چند سالوں میں شہریت دے کر اپنا بنا لیتے ہیں۔
minhajur.rab@janggroup.com.pk