• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالانہ بجٹ کسی بھی حکومت کی ترجیحات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگلے ایک سال میں حکومت ملک کی ترقی کیلئے کیا اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور شہریوں کی زندگی میں ان اقدامات سے کیا بہتری آئے گی ۔ تاہم وفاقی بجٹ 24-2023ء میں اس حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی ۔ اس وقت پاکستان کو جن معاشی مسائل کا سامنا ہے ان کی سب سے بڑی وجہ ہمارے زرمبادلہ کے محدود ذخائر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کبھی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور کبھی کسی دوست ملک کے آگے دستِ سوال دراز کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے بجٹ میں گزشتہ ایک سال سے بحران کا شکار انڈسٹری کی بحالی اور ترقی کیلئے کوئی ریلیف نہیں دیا ۔ انڈسٹری کو مجموعی طور پر جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہےوہ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے ۔ ایکسپورٹ انڈسٹری اس حوالے سے مزید مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ہم نے جو مال تیار کر کے عالمی منڈیوں میں فراہم کرنا ہوتا ہے وہاں صرف پاکستان کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ہمارے ہمسایہ ممالک عالمی تجارت میں ہمارے سب سے بڑے حریف ہیں۔ انہیں پاکستان کی نسبت سستی گیس اور بجلی میسر ہے اس لئے ان کی پیداواری لاگت کم ہے اور وہ گاہک کو کم قیمت پر اشیاء فروخت کر کے ہم سے زیادہ زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری خطے کے دیگر ممالک سے مقابلے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں صنعتی عمل کو پھلنے پھولنے کا موقع دینے کی بجائے ہمیشہ بیوروکریسی اور ٹیکس حکام کے دباو میں رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کاروباری ماحول بہتر بنانے کیلئے آج تک کسی حکومت نے ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘پر توجہ نہیں دی ۔ اس وقت پاکستان جس دوراہے پر کھڑ ا ہے اس کی وجہ گزشتہ کئی عشروں کی وہ ڈنگ ٹپاو پالیسیاں ہیں جو ہر چند ماہ کے بعد قلیل مدتی اہداف حاصل کرنے یا کسی خاص طبقے کو خوش کرنےکیلئے تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ یہ حکومت اگر ملک میں صنعتی عمل کو فروغ دے کر مستحکم بنیادوں پر ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے پر یقین رکھتی ہے تو سب سے پہلے انڈسٹریلائزیشن کیلئے لانگ ٹرم پالیسی بنانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے جو بھی پالیسی تیار کی جائے اس میں انڈسٹری کے تمام ا سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی ضروری ہے کہ مستقبل میں حکومت بنانے والی کوئی بھی سیاسی جماعت اس پالیسی کو تبدیل نہیں کرے گی۔ اس اقدام سے صنعتکار طویل المدت بنیادوں پر منصوبہ بندی کر کےصنعتی عمل کو آگےبڑھا سکیں گے اور پاکستان کو ہر تھوڑے عرصے بعد معاشی بحران کے باعث آئی ایم ایف یادیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔ اس وقت انڈسٹری کے حالات یہ ہیں کہ اربو ں روپیہ سیلز ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز و ٹیکسز کے ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث حکومت کے پاس پھنسا ہوا ہے۔ دوسری طرف شرح سود 21 فیصد پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے انڈسٹری کیلئے قرضوں کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے اور مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی انڈسٹری مشکلات کا شکار ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہئےکہ ایسے حالات میں ملک ترقی کیسے کرے گا ۔ ملازمتوں کے حصو ل کیلئے ہر روزمختلف فیکٹریوں اور دفاتر کا رخ کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کو ملازمتیں کہاں سے میسر آئیں گی۔ حکومت نے اگرچہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے لیکن کوئی بھی حکومت روزگار کے متلاشی تمام افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کی استعداد نہیں رکھتی۔ اس لئے انڈسٹری کی بحالی کیلئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں کیونکہ انڈسٹری کا پہیہ چلے گا تو لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اگر انڈسٹری ہی باقی نہ بچی تو لوگوں کا روزگار بھی ختم ہو جائے گا۔ ارباب اقتدار کو معاشی نظام کا یہ بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ برآمدات بڑھانے سے ہی ممکن ہے۔ اس کیلئے ٹیکسٹائل کےعلاوہ آئی ٹی اور دیگر شعبوں کے پوٹینشل کو بھی دیکھنا چاہئے۔ ہماری سب سے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے تجارت کے توازن کو بحال کرنا ہے ۔ ہماری تجارت کا تواز ن اس وقت ہمارے حق میں نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم پرانے قرضوں کی ادائیگی اوران کا سود ادا کرنےکیلئے بھی نئے قرضےلینے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں بنگلہ دیش ماڈل کوسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کس طرح ایکسپورٹ اورینٹڈ گروتھ پالیسی پرتسلسل کے ساتھ عملدرآمد کرکے اپنے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کیا ہے۔ علاوہ ازیں اوورسیز پاکستانی بھی زرمبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں۔ اگر انہیں ترسیلات زر بھیجنے پر خصوصی مراعات دی جائیں تو اس سے بھی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تجارت کا توازن بحال رکھنے کیلئے ہمیں درآمدات کے حوالے سے بھی پالیسی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات ،بنیادی خوردنی اجناس، انڈسٹری کو درکار خام مال اور مشینری کے علاوہ دیگر غیر ضروری اشیاء پر زرمبادلہ ضائع نہ کیا جائے۔ اس سے سرمایہ کاروں کو بیرون ملک سے درآمد ہونے والی اشیا کا متبادل مقامی طور پر تیار کرنےکا موقع میسر آئے گا جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ وہ چند بنیادی نکات ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین