چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالت بھی مانتی ہے کہ 184/3 کا دائرہ کار وسیع ہو۔
ریویو آف سپریم کورٹ ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، خصوصی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں پانچ نکات پر دلائل دوں گا، مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقا پر دلائل دوں گا، پاکستان میں نظرثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کروں گا، مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کروں گا، بھارتی عدالت میں نظرثانی کے دائرہ اختیار اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں حقوق کی انفورسمنٹ کے لیے آرٹیکل 184/3 کے اختیارات کو بڑھایا گیا، آرٹیکل 184/3 کے تحت پہلا فیصلہ منظور الہٰی کیس میں آیا، منظور الہٰی کے بھائیوں نے سندھ اور بلوچستان میں بھی درخواستیں دائر کیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتاری کے بعد منظور الہٰی کو قبائلی علاقہ میں لے جایا گیا، درخواستوں میں انہوں نے اپنی بازیابی کی استدعا کی، میں پڑھ کر بتاؤں گا کہ گزشتہ برسوں میں 184/3 کا دائرہ اختیار کیسے بڑھتا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ 184/3 کے ساتھ نظرثانی کا دائرہ اختیار کیوں اور کیسے بڑھنا چاہیے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ درخواست گزار کا مؤقف بھی ذرا سمجھیں، درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نے کیوں کیا، درخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سے کریں، عدالت بھی مانتی ہے کہ دائرہ کار وسیع ہو اس میں وجوہات بھی شامل کریں ورنہ تو آپ عدالتی معاملات ڈسٹرب ہی کریں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سمجھنا مشکل ہے کہ 184/3میں فیصلوں کے خلاف نظرثانی کا دیگر فیصلوں سے فرق کیسے کیا گیا؟ میرے لیے تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے خلاف نظرثانی کا پیمانہ ایک ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں وطن پارٹی کیس کا حوالہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ میں فیصلوں کے حوالوں کے بعد سپریم کورٹ رولز پر بھی آؤں گا، وقت کے ساتھ 184/3 کا ہی دائرہ کار وسیع ہوا، اس پر نظرثانی کا بھی ہونا چاہیے تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ چیزوں کو کاٹ کر الگ کیسے کر سکتے ہیں کہ اس کی نوعیت الگ ہے دوسرے کی الگ؟ آخر میں کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہلائے گا، نظرثانی میں عدالت کے سامنے معاملہ 2 فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا، نظرثانی میں عدالت کے سامنے زیر غور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے، عدالت نے مختلف ادوار میں 184/3 کے دائرہ اختیار کو مختلف انداز میں سمجھا، امریکی سپریم کورٹ نے بھی اس کو مختلف ادوار میں الگ طرح سے پرکھا، ہو سکتا ہے 2 ماہ، 6 سال یا 20 سال بعد یہ عدالت بھی 184/3 کے اختیار کو اور طرح سے سمجھے، ایسے میں آپ کے اس ایکٹ کا مستقبل کیا ہو گا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے نظرثانی کو دوبارہ سماعت جیسا بنانا ہے تو آپ ضرور کریں، اس کے لیے آپ درست قانونی راستہ اختیار کریں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں یہ بھی بتا دوں گا کہ نظرثانی کا ارتقا کیسے ہوا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ گُڈ، یعنی اب ہم نظرثانی کے ارتقا پر آپ کو سنیں گے، نظرثانی اور اپیل دونوں مختلف اختیار ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ 184/3 کے تحت کیس میں قانونی سوالات اور حقائق کا بھی جائزہ لیتی ہے، ضروری ہے کہ 184/3 کے تحت دیے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہو۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے جسٹس منیب اختر کے پنجاب انتخابات کے بارے میں فیصلے کا حوالہ دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سپریم کورٹ نے 184/3 کے اختیار سماعت کو بڑھایا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہمیں علم ہے 184/3 کے اختیار سماعت کو کیسے بڑھایا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اعتراض یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ قانون جلد بازی میں بنایا گیا، 184/3 کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم ہونی چاہیے تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ محض 184/3 کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینا امتیازی رویہ ہے۔
عدالت نے ریویو آف سپریم کورٹ ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف سماعت کل تک ملتوی کر دی۔