آج کل کے دور میں جہاں آسائیشات اور تعیشات کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ زندگی کا حاصل فقد جدید سے جدید شے کاحصول رہ گیا ہے ۔ اس دوڑ نے جہاں سماجی اور اخلاقی معاملات میں خرابیاں کی ہیں وہیں انسانوں کو ذہنی طور پر نفسیاتی دباؤ کا شکار کردیا ہے۔
یہیں پہ بس نہیں ہوتا بلکہ متعدد معاملات ایسے ہوگئے ہیں کہ ان میں بھی نمائش کا لیول بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ مثلا بچوں کا رزلٹ اچھا آیا یا نہیں۔ اچھا آیا تو اس کی سوشل میڈیا پہ نمائش اچھا نہ آیا دوسروں کے بچوں کا رزلٹ دیکھ کر شدید ذہنی دباؤ میں آنا۔ اور اپنے بچوں کو خوب برا بھلا کہنا اور اب تک کے کئے گئے خرچے کا حساب بتانا۔ (معذرت کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے تعلیمی دور میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا تھا)۔
اسی طرح مہنگی ترین شہ کو خریدنے کے بعد اس بات کا انتظار کرنا کہ لوگوں نے کیا کہا، کتنے لوگوں نے تعریفیں کیں، کتنے لوگوں نے نکتہ چینی کی اور کتنے لوگ خاموش رہے اور کتنے دیکھ کر جل گئے۔عجیب نفسیاتی پن ہے کہ چیز اپنے لئے لی جانے کہ بجائے اس لئے لی جاتی ہے کہ دوسروں کو متاثر کیا جاسکے اور اگر لوگ خدانخواستہ متاثر نہ ہوں تو بہت ہی ڈپریشن کی بات ہے ساری محنت اکارت گئی۔
سوشل میڈیا پہ "ان" رہنا بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ bloggers سے vloggers تک کے سفر میں بھی ذہنی دباؤ نظر آتا ہے۔ اپنی کوئی ویڈیو بنا کر ڈالو اور پھر بار بار دیکھتے رہو کہ لوگوں نے کتنا رسپانس دیا ہے، کیا کمنٹس آرہے ہیں، کتنی لائیکس ہیں۔ انسان بے چین ہو ہو کے صرف موبائل کی چیک کرتا رہے۔ اس ٹینشن اور ڈپریشن میں رہتے رہتے لوگ ہائی بکڈ پریشر، شوگر اور ہائیپر ٹینشن کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
دلوں سے اطمینان غائب ہوچکا ہے۔ لاکھوں چیزیوں کی موجودگی میں اس بات کی فکر ہے کہ سامنے والے کے پاس جو ایک چیز ہے وہ میرے پاس نہیں ہے۔ یہ کم مائیگی ہی مارے دیتی ہے۔ کبھی یہ خیال نہ آتا کہ کتنی چیزیں ایسی ہیں کہ جو صرف میرے پاس ہیں سامنے والے کے پاس نہیں۔ لیکن ہر چیز کی حصول کی دوڑ انسان کو مطمئین نہیں ہونے دیتی۔ جب یہ مطمئین نہیں ہوتے تو خوش بھی نہیں ہوتے۔
ہم مطمئین ہوں گے تو خوش ہوں گے۔ اور یہ دلوں کو مطمئین کیسے کیا جاتا ہے۔ پتا سب کو ہے۔ صرف یاد کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
minhajur.rab@janggroup.com.pk