• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ غلط پالیسیوں اور غلط مفروضوں کے حوالے سے دو حصوں پر مشتمل مضمون کا دوسرا حصہ ہے جس نے ہماری قومی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا ہے اور ہمیں وقتاًفوقتاً ایسے بحرانوں کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہیں جس میں ڈونرز کی مسلسل مداخلت اور اس کے نتیجے میں قرضوں کا بڑھتا ہوا پہاڑ شامل ہے۔یہاں میں چارمزید بنیادی غلطیوں کو بیان کروں گا جو ہمیں اس مقام تک لے آئی ہیں اورجن غلطیوں کی اصلاح ضروری ہے۔

سب سے پہلے میں اس بات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کہ جس جی ڈی پی کو اس حساب میں بطور ڈینومیینیٹر استعمال کیا جاتا ہے تو بلند افراط زر کے ماحول میں قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ ایک گمراہ کن ڈینومینیٹر ہو سکتا ہے ۔دوسرا غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ آیا قرض لینے والے نے بہت زیادہ قرض لیا ہوا ہے یا نہیں تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ آیا اس کے پاس قرض کی ادائیگی کرنے کیلئے درکار غیر ملکی آمدنی ہے یا نہیں۔ درحقیقت ہماری درآمدات ہماری برآمدات سے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہم خسارے میں رہتے ہیں 1960ءکی دہائی سے ہمارے پاس غیر ملکی قرض یا ایف ڈی آئی کے اخراجات پورے کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ایک اور غلطی جو یکے بعد دیگرے حکومتوں نے کی وہ یہ ہے کہ مقامی اخراجات جو کہ روپے میں ہوتے ہیں ان کےعوض غیر ملکی کرنسی میں قرض لیتے ہیں ایسے قرضوں کی فراہمی غیر ملکی قرضوں میں اضافے کا ایک اور ذریعہ ہے یوں پاکستان غیر ملکی قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے۔

چھٹا غلط مفروضہ یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافہ غیر ملکی درآمدات کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کا نتیجہ ہے جسے ہم کنٹرول نہیں کر سکتے یہ غلط بھی ہے اور خطرناک بھی، اصل میں روپے کی قدر میں گراوٹ اور افراط زر میں اضافے کی وجہ مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ اس کے نتیجے میںمالیاتی خسارے کو چلانے کے حکومتی رجحان کو روکنے میں ناکامی ہوئی جس نے رقم کی فراہمی میں تیزی سے اضافہ کیا ۔اس نے اس براہ راست حکومت کو قرض دے کر اور حکومت کیلئے بینکوں سے بلاروک ٹوک قرضہ لینےکیلئے درکھلے چھوڑ کر اس عادت کو آسان بنایا۔قرض دے کر بینک اور مرکزی بینک دونوں رقم کی فراہمی میں اضافہ کرتے ہیں چونکہ اسٹیٹ بینک نے حکومت کو بینکوں اور خود اسٹیٹ بینک سے قرض لینے سے نہیں روکا تو اس لئے اسٹیٹ بینک ہی رقم کی فراہمی افراط زر اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا ذمہ دار ہے۔اگر اسٹیٹ بینک نے حکومت کو محدود رکھا ہوتا اور اس کا رخ اپنے قرض لینے کی ضروریات بالخصوص انفرادی بچت کرنے والوں اور غیر بینکوں کی ادارہ جاتی بچت کرنے والے اداروں کی طرف موڑ دیاہوتا تو اس سے ناصرف حکومت کے اخراجات پر پابندی لگ جاتی بلکہ اضافی سرکاری اخراجات سے پیدا ہونے والی رقم کی فراہمی میں بھی اضافہ نہ ہوتا اور ہم نے جائیداد اور گاڑیوں میں بچت کے ذریعے رقم کی سپلائی میں بیش بہا اضافہ نہ دیکھا ہوتا اور خوراک، جائیداد اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے سے گریز کیا ہوتا تو سرمایہ کم مارجن کے حامل کاروبار سے جائیداد اور پائیدار سرمایہ کاری کی طرف منتقل نہیں کیا جاتا۔کسی بھی خاندان یا کاروباری بجٹ کا صحت مند نقطہ نظر یہ ہو تا ہے کہ حقیقت پسندانہ طور پر اس کی آمدنی کی پیشں گوئی پہلے کی جائے کسی قسم کا اضافی قرض لینے کا سوچا تک نہ جائے (جو بہرحال کھپت کوسہارا دیتا ہے) اور آمدنی کی پیش گوئی کے اندر رہتے ہوئے سرکاری اخراجات کے حجم کو کم کیا جائے اس سے حکومت کے حجم کو کم کرنے اور پیداواری اقدامات کی بنیاد پر انفرادی اخراجات سے حاصل ہونے والے فائدے کی پیمائش پر مبنی سرگرمیوں کیلئے رقم کو ترجح دینے کی سخت ضرورت کا پتہ چل جاتا ہے۔

ناقابل برداشت سرکاری اخراجات نے حکومت کو درآمدی ڈیوٹی محصولات کوبرقرار رکھنے اور بڑھانے کا عادی بنا دیا ہے ۔ ہماری حکومت کے اس عادت سے فائدہ اٹھانے سے صنعتوں کیلئے بین الاقوامی سطح پر مسابقتی برآمدکنندگان بننے کے پیمانے اور مصنوعات کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ ایک اور بے ضابطگی جس کا نتیجہ برآمد ہوا ہے وہ یہ ہے کہ درآمدکنندگان کیلئے موثر شرح مبادلہ وہ ہے جس کا نتیجہ درآمدی ڈیوٹی کی شرح کو مارکیٹ ایکسچینج ریٹ میں شامل کرنے سے ہوتا ہے پھر بھی برآمدکنندگان اپنی وطن واپسی پر یہ موثر زرمبادلہ حاصل نہ کرکے برآمدات کی غیر مسابقتی قیمتوں کے تعین پر مجبور ہیں۔پھر یہ کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستان کی آبادی 25سال میں 35کروڑ تک پہنچنے کی توقع ہے اس خطرناک پیش گوئی نے میری کئی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں ہماری معیشت کا حجم کم ہے مستقبل میں آبادی میں ہونے والے اضافے کو تو چھوڑ دیں یہاں تک کہ تمام درست حکمت عملیوں کے ساتھ بھی یہ معیشت ہماری موجودہ آبادی کو کوئی چیز فراہم نہیں کرسکتی۔

میں نے دیگر اہم شعبوں جیسے زراعت، تعلیم ، ہنرمندی وغیرہ کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور مجھے یقین ہے کہ میرے قارئین کے پاس مزید اچھی اور فائدہ مند تجاویز بھی ہوں گی میرا نکتہ صرف عقائد اور اطراف کی چیزیں حاصل کرنے سے ہے، ٹھیک ہے باقی چیزیں خودبخود ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گی۔( صاحب مضمون مشرق وسطیٰ ، مشرق بعید، افریقہ اور یورپ کی منڈیوں کے حوالے سے ایک سینئر بین الاقوامی بینکارہیں )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین