ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھ کرحیرانی سے سوال کرتے کہ نیوز اینکرز ساری خبریں روانی سے کیسے پڑھتے ہیں؟ کیا تمام خبریں یاد کرنی پڑتی ہیں؟ لیکن آج خبریں پڑھنے کے لئے ٹیلی پرومپٹر کے استعمال سے تقریبآً ہر کوئی واقف ہے۔ صرف خبروں میں ہی نہیں اب مختلف پروگراموں میں بھی میزبان بڑی خوبصورتی سے پرومپٹر کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ٹی وی اسٹودیوز کی حد تک تو اس جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر انگلی نہیں اٹھائی گئی تاہم ٹیلی پرومپٹر کی مدد سے تقریر کرنے پر بلاول بھٹو زرداری کو شدید تنقید کا نشانہ ضرور بنایا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بلاول کی اردو میں روانی سے تقریر، اصل میں ٹیلی پرومپٹر کا کمال تھی۔ جسے بے نظیر بھٹو کی تصویر لگا کر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تقریرکا پڑھنا خطابت نہیں ہے، مو ضوع پر گرفت اور مطالعہ کی طاقت پرفی البدیہہ بولنا تقریر و خطابت ہے اور جیسا کہ موضوع اورماحول کے ساتھ خطابت کا لہجہ بدلتاہے لہٰذا خطیب کی آواز کی اہمیت اور تاثیر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔پبلک اسپیکنگ قطعآً آسان کام نہیں اسے ایک اچھا مقرر اپنے ہنر سے کامیاب بناتا ہے۔ اچھی لکھی ہوئی تقریر جس میں عوام، اپوزیشن اور دیگر متعلقہ افراد و اداروں کے لئے مختلف پیغام ہوں موثر طریقے سے ڈیلیور کرناہی آرٹ ہے اور یہ دنیا کا کوئی ٹیلی پرومپٹر نہیں سکھاتا۔
ٹیلی پرومپٹر کےحوالے سے امریکہ میں بحث خاصی پرانی ہو چکی ہے۔ درحقیقت صدر رونلڈ ریگن، جارج ایچ ڈبلیو بش، بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور باراک اوبامایہ تمام صدور، ان کے مدمقابل امیدار اور نائب صدور بھی ٹیلی پرومپٹر کا استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اب بھی صدر اوباما کے مخالفین ان کے ٹیلی پرومپٹر کے استعمال پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دوہزار نو میں اس حوالے سے دلچسپ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب امريکي صدر اوباما واشنگٹن ميں آئزن ہاور ايگزيکٹو بلڈنگ ميں اقتصادی منصوبہ پر تقرير کررہے تھے ان کے سامنے چلنے والے ٹيلی پرومپٹر کا شيشہ ٹوٹ کر زمين پر بکھر گيا۔ شيشے ٹوٹنے کی آواز سن کر اوباما نے گھبرا کر تقرير روک دی۔ سامعین موقع کی نزاکت پر ہنس پڑے جبکہ اوباما نے حاضردماغی سے کام لیتے ہوئے معاملے کا رخ موڑدیا اور تقریر جاری رکھی۔ اب روایتی طریقے کی بات کریں تو عموماً سیاسی تقاریر کے لئے دنیا بھر میں کاغذ یا نوٹ کارڈز پر اہم نکات تحریر ہوتے ہیں ۔ماضی میں مارٹن لوتھر کنگ کے تاریخی خطاب- آئی ہیو آ ڈریم- کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ وہ عظیم لیڈر وقفے وقفے سے پوڈیم پر موجود اپنی تقریر کے اہم مندرجات پر نظر ڈال رہے ہیں، اسی طرح ابراہم لنکن کا گیٹیزبرگ خطاب اور جان ایف کینڈی کی مشہور و معروف تقریر- آسک ناٹ- میں بھی روایتی طور پر کاغذ کی مدد لی گئی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ عظیم لیڈرز آج کے جدید دور میں ہوتے تو سائنس کی اس ایجاد ٹیلی پرومپٹر سے ضرور مستفید ہوتے۔
اور پھر موجودہ دور میں سائنس کی اس شاہکار ایجاد کے استعمال میں کوئی قباحت بھی نہیں جس کے ذریعے خطیب اپنی تقریر کے اہم نکات پر نظر ڈالتا ہوا عوام سے مخاطب ہوتا ہے ۔ یہ کوئی جادوگری، ڈھکی چھپی یا پھر شرمندگی کی بات نہیں۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ خطیب کو اپنی تقریر کے مندرجات یا انداز خطابت پر گرفت نہیں بلکہ اس طرح وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے بجائے اس کے کہ وہ پوڈیم پررکھے صفحات کو الٹتا پلٹتا رہے، بھرے مجمعے کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر اسے مکمل طور پر متوجہ رکھتے ہوئے اپنا پیغام پہنچایا جا سکتاہے۔
یہ ماڈرن ٹیکنالوجی کا ہی تو کمال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین لندن میں رہتے ہوئے ٹیلی فون اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے براہ راست اپنے کارکنوں سے مخاطب ہو کر موثر طریقے سے پارٹی معاملات چلا رہے ہیں ۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے اپنے جلسوں میں موسیقی کے استعمال اور سوشل میڈیا پرسیاسی مہم چلا کر زمانے کے نئے انداز اپنانے کا اظہارکیا ۔ اسی طرح اب پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ٹیلی پرومپٹرکی سیاست پر اعتراضات بے معنی ہیں کیونکہ اب سیاست دانوں کی نئی نسل کے علاوہ بہت سے روایتی سیاست دان بھی ماڈرن ٹیکنالوجی، ٹرینڈز اور سماجی رابطےکی ویب سائٹوں سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں جو پاکستانی سیاست کے خوش آئند اور جدید رنگ ہیں۔