چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی حکم امتناع جاری نہیں کررہے، کسی بھی عبوری حکم سے پہلے اٹارنی جنرل کو سُنیں گے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں ایک درخواست گزار جواد ایس خواجہ کا رشتے دار ہوں، کسی کو میری بینچ میں شمولیت پر اعتراض ہے تو ابھی بتا دیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی کو آپ کی بینچ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل بھی بتا دیں کوئی اعتراض ہے تو بینچ سے الگ ہو جاؤں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کے بینچ کا حصہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے فارمیشن کمانڈرز اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔
لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا بریگیڈیئر۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ یہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اس میں آئی ایس پی آر کا نام کہاں لکھا ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ آئی ایس پی آر کا ہی جاری اعلامیہ ہے، کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی توثیق کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بیانات سے نکل کر اصل قانون کیا ہے وہ بھی بتا دیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست کر کے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پر حملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کتنے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور کتنے گرفتار ہوئے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ 10 مئی کو پہلے 50 افراد گرفتار کیے گئے، شاہ محمود قریشی، مراد سعید، فرخ حبیب کے خلاف مقدمات درج ہوئے، پورے ملک سے 10 مئی کو 4 ہزار افراد گرفتار ہوئے، کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ قانون تو پڑھ دیں جس کے تحت افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو تمام مقدمات بنائے گئے ان کو سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کو پہلے ہی حاصل ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا یہی مؤقف ہے کہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں، فوجی عدالتوں میں نہیں، 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں 9 سے 10 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق میں رہیں، جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کیے گئے؟
جسٹس منصور نے کہا کہ جو متاثرہ ہیں کیا ان میں کسی نے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے پاس اس قسم کی معلومات نہیں ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نے درخواست دائر کی مگر فی الحال کسی متاثرہ شخص نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے کیا اس قانون کو کسی نے چیلنج کیا؟
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا ملٹری کورٹس سے متعلق قانون چیلنج ہو سکتا ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف مقدمہ کون سنے گا؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں، ہمارے پاس اس سے متعلق کوئی کتاب نہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم تو اس لیے آئے کہ ہمیں 25 کروڑ عوام کی فکر ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقلی کی دی گئی درخواست دکھا دیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کتنے لوگوں کے نام کورٹ مارشل کے لیے بھیجے گئے ہیں؟ کوئی قانون یا ٹھوس بات بتائیں کس بنیاد پر سزائیں ہو رہی ہیں۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجسٹریٹ یا عدالت کو درخواست دی جاتی ہے کہ ان افراد کو ہم آرمی ایکٹ کے ٹرائل میں لے جانا چاہتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ سویلینز پر قابل عمل نہیں تو اے ٹی سی کے مقدمات فوجی عدالت کیسے منتقل کرنے دیے؟
جسٹس منصور نے کہا کہ کس قانون اور بنیاد پرسویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی گئی؟ انسداد دہشت گردی عدالت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ہم ان افراد کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں تو کوئی پیش نہیں ہوا، یہی تو کہہ رہا ہوں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے آرٹیکل549 میں تو یہ ہے کہ متعلقہ افراد کو ان کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہی تو سوال آپ کے سامنے لے کر آئے ہیں کہ کیسے پرائیویٹ افراد کو فوجی عدالتوں میں بھیجا رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وقت کی قلت ہے،ایک وکیل روسٹرم پر آکر بات کرے، لطیف کھوسہ صاحب 10 منٹ میں اپنے دلائل مکمل کریں۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی عدالت میں بحث ہوئی کہ کیوں فوجی عدالتوں میں مقدمات منتقل کیے جائیں؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ جب فارمیشن کمانڈرز اور کابینہ سے منظوری ہو تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا حکومت کا پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ اس کو چیلنج نہیں کرے گا؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ دکھا دیں آرمی ایکٹ میں کہاں ہے کہ کن حالات میں سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کہیں سویلینز کے ٹرائل کا ذکر نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک سوال کیا کہ آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ سزا کتنی ہو گی؟
جسٹس منصور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں تو ہمارے سول قانون میں آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت سزائیں ہیں، اگر پوچھا جائے کہ فوج سے سزا چاہیے یا سول عدالتوں سے تو لوگوں کا رش لگ جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرمی ایکٹ پر پرانے فیصلوں کو بھی دیکھیں گے۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا کہتا ہے کہ کون سے جرائم پر فوجی ٹرائل ہو گا؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں فوجی تنصیب پر حملے کا ذکر ہے لیکن یہ کور کمانڈر ہاؤس تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا فوجی عدالتوں میں انڈر ٹرائل پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہو گا، دیکھنا ہو گا کہ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ کس بنیاد پر دیا تھا۔
لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ٹرائلز سے عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہوتی ہے، یہاں یہ ہوا جس نے پریس کانفرنس کی اس کو چھوڑ دیا جس نے نہیں کی اسے پکڑ لیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کو اتنے سوالات عدالت کے سامنے رکھنے کی ضرورت نہیں، آپ کا کیس سادہ ہے کہ سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر آج کیس کو ختم کریں تو کل کی گائیڈ لائنز دوں، کل فیصل صدیقی کو سنیں گے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، میرے گھر پر حملہ ہوا ہے، سویلین کے فوجی ٹرائل پر امتناع دے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز حکم امتناع سے درست نہیں کی جا سکتی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ چاہے سول کورٹ ہو یا فوجی عدالت، ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، یہاں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے، وکلا کو ہراساں کیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، لطیف کھوسہ کے گھر پر حملہ ہوا، عزیر بھنڈاری کو چند گھنٹے کے لیے غائب کیا گیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ کسی بھی وکیل کو ہراساں کرنا غلط ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دوسرا طبقہ صحافی ہیں، صحافی آزاد نہیں ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے، بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتارکیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا؟ خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟ بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے؟ پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے، لوگوں کی گفتگو رکیارڈ کی گئی، ان کی ذاتیات میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے، ان سے پوچھیں کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے؟ تمام گرفتار افراد کے درست اعداد و شمار پیش کیے جائیں، کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں، کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ کو سننا چاہتے ہیں، اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہے گا، اگر بینچ کا ایک بھی ممبر نہ ہو تو سماعت نہیں ہو سکے گی، تمام فریقین اپنے دلائل تحریری طور پر جمع کرا دیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا بینچ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد اٹھ کر چلا گیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کے لیے 7 رکنی بینچ تشکیل دیا، جس میں اعتراض کرنے والے دونوں جج کو شامل نہیں کیا گیا۔