مکہ مکرمہ کی عظیم الشان مسجد الحرام میں جیسے ہی عمرے اور حج کے زائرین داخل ہوتے ہیں تو کبوتروں کا ایک جھنڈ اپنے پھڑپھڑاتے ہوئے پروں سے ان کا پُرتپاک استقبال کرتا ہے۔
ان کبوتروں کو حرم مکی یا مقدس کبوتر کہا جاتا ہے، گردنوں کے نزدیک نیلے یا سبز مائل پروں والے یہ کبوتر خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، معتمرین ثواب کی نیت سے انہیں اکثر دانہ ڈالتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں، جبکہ عازمین حج و عمرہ ہوں یا کوئی اور کسی کو بھی ان کا شکار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اگر کوئی ان کا شکار یا انہیں قتل کرتا ہے تو ایسی صورت میں اس پر فدیہ یا جرمانہ واجب ہے۔
مکہ مکرمہ کی تاریخ میں مہارت رکھنے والے ایک محقق سمیر احمد برقہ کے مطابق ان کبوتروں کو مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقدس مقام کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور اس لئے بھی کیونکہ انہیں مکہ مکرمہ میں اپنی حفاظت کا کس قدر یقین ہے۔
ان کبوتروں کو ان کی خوبصورت شکل، منفرد رنگ، بڑی بڑی آنکھیں اور لمبی گردنیں دیگر تمام پرندوں سے منفرد بناتی ہے۔ حرم مکی کے یہ کبوتر زائرین سے ڈرتے نہیں ہیں، چاہے یہاں کتنا ہی رش کیوں نہ ہو۔
سمیر احمد برقہ کے مطابق ان کبوتروں کو نقصان پہنچانے کی حرمت اس امر سے وابستہ ہے کہ یہ اُن کبوتروں کی نسل سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دروازے پر گھونسلے بنا ڈالے تھے۔
انہوں نے ایک دوسری روایت کے مطابق بتایا کہ حرم مکی کے کبوتروں کی نسل کا تعلق اُن ابابیل پرندوں سے ہے جو سمندر کی جانب سے آئے تھے اور انہوں نے اپنے پنجوں میں پتھر اور کنکر تھام رکھے تھے تاکہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادے سے آنے والے یمن کے بادشاہ ابرہہ الاشرم کو باز رکھا جائے۔
سمیر احمد برقہ کے مطابق اس حوالے سے ایک تیسری روایت میں مشہور طوفان کی کہانی بھی ملتی ہے اور حضرت نوحؑ نے اس پرندے کو زمین اور اس کی خشکی کو دریافت کرنے کے واسطے استعمال کیا تھا۔ اس طرح یہ پرندہ دنیا بھر میں امن کی علامت بن گیا۔
ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور پھر مہینے کے درمیان ایک مرتبہ پھر مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔ حرمت والے کبوتر خانہ کعبہ یا اس کے اطراف میں رفع حاجت نہیں کرتے، جس کی وجہ سے انہیں حجاج اور نگہبان دونوں کی طرف سے پذیرائی ملتی ہے۔
ان کبوتروں اور زائرین کے درمیان محبت کا یہ رشتہ سینکڑوں سال پرانا ہے۔