سندھ کے محققین اور دانشوروں کو سندھ کو لاحق متعدد خطرات کے بارے میں کافی تشویش رہی ہے مگر کچھ عرصہ سے یہ تشویش اتنی بڑھی کہ سندھ کے اندر لانگ مارچ بھی ہونے لگے‘ مختلف سیاسی جماعتوں کے اجتماع بھی ہوتے رہے مگر حکمران طبقوں کی طرف سے سندھ کے ان حلقوں اور عوام کی اس تشویش کا ازالہ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی اور نہ اس کا نوٹس لیا گیا‘ سندھ کو لاحق ان خطرات کے بارے میں برطانیہ میں قائم کی گئی ورلڈ سندھی کانگریس اور امریکہ اور نارتھ امریکہ میں رہائش پذیر سندھی عوام کی طرف سے بنائی گئی ’’سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ‘‘ (سانا) کی طرف سے وقتاً فوقتاً سندھ کے ان خطرات کے بارے میں نہ صرف تشویش کا اظہارہوتا ہے بلکہ حکومت پاکستان سے مطالبات بھی ہوتے رہتے ہیں۔گزشتہ دنوں برطانیہ سے ورلڈ سندھی کانگریس کے ایک رہنما ڈاکٹر منور ہالیپوتہ پاکستان آئے،انکے اعزاز میں سندھ کی کچھ ممتاز قوم پرست جماعتوں کی طرف سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا‘ اس کانفرنس سے پہلے ڈاکٹر منور ہالیپوتہ کی صدارت میں کچھ قوم پرست تنظیموں کے رہنمائوں اور دانشوروں کا اجلاس بھی ہوا۔ اس اجلاس میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی‘ قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو‘ سندھ کے ممتاز دانشور اور سندھ ہائی کورٹ بار حیدرآباد کے صدر یوسف لغاری‘ سندھ کے ممتاز قوم پرست رہنما سید غلام شاہ‘ سینئر صحافی خالد کھوکھر‘ حیدر شاہانی‘ ڈاکٹر احمد نوناری‘ گلزار سومرو اور دیگر نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں سندھ کے آٹھ قومی مفادات کی تشکیل کی گئی اور سات نکاتی ’’سندھ چارٹر‘‘ کی منظوری دی گئی۔ ان حلقوں کے مطابق اس اجلاس میں طے کیا گیا کہ یہ حلقے اس چارٹر اور سندھ کے قومی مفادات کے حوالے سے سندھ کی دیگر قوم پرست تنظیموں اور حلقوں کے ساتھ نہ صرف مذاکرات کریں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ ان نکات پر صوبے کی دیگر قوم پرست جماعتوں اور حلقوں کے ساتھ ایک اور وسیع کانفرنس منعقد کرکے سندھ کے قومی مفاد کا ایک وسیع پروگرام سامنے لاکر جدوجہد کی جائے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ حلقے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے قوم پرست جماعتوں کے رہنما اور دانشور ڈاکٹر منور ہالیپوتہ کو تجویز دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سے بھی اس پروگرام کے حوالے سے رابطہ کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ وہ بھی اس پروگرام میں شریک ہو۔ بہرحال چند دن پہلے ان قوم پرست رہنمائوں نے ڈاکٹر منور ہالیپوتہ کی صدارت میں ’’سندھ کے قومی مفادات‘‘ کی جو فہرست تیار کی ہےوہ مندرجہ ذیل ہیں۔ سندھ کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت‘ دریائے سندھ جو سندھ کی لائف لائن ہے‘ سندھ کی ڈیما گرافی کا تحفظ اور سندھیوں کو حکومت کرنے کا حق‘ سندھی زبان کا تحفظ اور اس کی ترقی‘ سندھ کے ہر قسم کے وسائل کا کنٹرول اور ثقافتی ورثے کا تحفظ اور معاشرے کے طور پر اس کی شناخت مذہبی ہم آہنگی اور وفاقی حکمرانی میں سندھ کی شرکت اور اس کا فیصلہ‘ اسی اجلاس میں جو ’’سندھ چارٹر‘‘ منظور کیا گیا ہے‘ اس کے نکات یہ ہیں۔ تاریخی طور پر سندھ امن‘ ہم آہنگی اور فراخ دلی کی سرزمین رہا ہے‘ وہ ہزاروں سال سے ایک آزاد ملک رہا ہے‘ اس عرصے کے دوران جب کچھ غیر ملکی قوتوں نے سندھ پر حملہ کرکے اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا اور اس کے تقدس کو پامال کیا‘ سندھی‘ اپنی زبان‘ ثقافت‘ روایات اور تاریخی تعلقات کو محفوظ کرتے ہوئے اپنی مادر وطن میں پرامن بقائے باہمی کے اصول پر اپنی دھرتی کے سپوت اور اپنے قدرتی وسائل کے مالک کی حیثیت میں زندگی گزارتے رہے ہیں‘ انگریز حکمرانوں نے 1843ء میں آزاد اور خود مختار سندھ پر قبضہ کیا اور اسے برطانوی سلطنت کا حصہ بنایا‘ بہرحال 1947ء میں تقسیم کے موقع پر سندھ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر بحال نہ کیا گیا‘ سندھیوں نے رضا کارانہ طور پر 1940ء کی قرارداد کے مطابق پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس قرارداد میں کہاگیا تھاکہ وجود میں آنیوالے ملک کے سارے یونٹ Autonomous خود مختار اور Sovereign اقتدار اعلیٰ کے مالک ہوں گے‘ اس قرارداد سے اتفاق کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں اس قرارداد کو منظور کیا گیاجس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا‘ بہرحال اقتدار میں آنے والی غیر جمہوری حکومتوں اورفوجی آمروں نے کبھی ان تاریخی وعدوں پر عمل نہ کیا‘ وہ بار بار سندھیوں کے تاریخی اور قدرتی حقوق ،جن میں ان کے سیاسی‘ شہری‘ ثقافتی اور معاشی حقوق شامل ہیں‘ کی اس حد تک خلاف ورزی کرتے آئے ہیں کہ انہوں نے یہ کرتے ہوئے آئی سی سی پی آر‘ آئی سی ای ایس سی آر اور بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی کی۔ سندھ کے قدرتی وسائل جن میں تیل‘ گیس‘ کوئلہ اور پانی شامل ہیں کا بغیر معاوضے کے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔کئی بار فوجی آپریشن کے نتیجے میں ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ ہوئیں‘ نئی کالونیاں وجود میں لائی گئیں‘ غیر قانونی غیر ملکیوں کی آباد کاری ہوئی ،اسلحہ و منشیات کو فروغ ملااور دہشت گردی پروان چڑھی۔ جس کے نتیجے میں دس ہزار سال پرانی انڈس سویلائزیشن اس وقت اس حالت میں سانس لے رہی ہے کہ نہ فقط اس کا وجود فنا ہوسکتا ہے بلکہ سندھ کے جغرافیائی سیاسی‘ سماجی ‘ معاشی‘ ثقافتی اور علاقائی وجود کو بھی سیاسی عدم استحکام‘ معاشی دیوالیہ پن اور امن و امان کے Collapse ہونے سے شدید خطرہ ہے۔