• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضلع سکھر کے مختلف شہروں میں نشہ آور اشیا کی فروخت جاری، پولیس خاموش

سکھر(بیورورپورٹ) رمضان المبارک کے دوران بھی سکھر اور بالائی سندھ کے دیگر اضلاع گھوٹکی، خیرپور، شکارپور،جیکب آباد،نوشہروفیروز سمیت دیگر علاقوں میں اسمگل شدہ نشہ آور اور مضر صحت گٹکے کی مصنوعات کی فروخت جاری ہے ،سکھر بالائی سندھ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں پر روزانہ اسمگل شدہ نشہ آور مصنوعات جن میں گٹکا، پان پراگ، سٹی، ون ٹو ون سمیت دیگر ناموں سے اشیاء شامل ہیں ، علی الصباح لائی جاتی ہیں۔ دوسری جانب سکھر شہر کے مختلف علاقوں میں گھروں میں تیار ہونے والا مضر صحت گٹکے کا ایک بڑا ہول سیلر جو کہ گھنٹہ گھر کے نزدیک موجود ہے، مذکورہ ہول سیلر کی جانب سے ہر ماہ پولیس کو مبینہ طور پر لاکھوں روپے منتھلی بھی دی جاتی ہے، گھروں میں بننے والا مضر صحت گٹکا گھنٹہ گھر اور پان منڈی میں ہول سیل دکان پر رکھنے کے بجائے گھروں میں موجود رہتا ہے اور یہ گٹکا گھروں سے ہی رکشوں ، موٹر سائیکلوں کے ذریعے دکانوں پر فروخت کیا جاتا ہے، سابق ایس ایس پی سکھر تنویر حسین تنیو نے مقامی سطح پر مضر صحت انتہائی خطرناک گٹکا بنانے والے مذکورہ تاجر کو دفتر بلا کر متنبہ کیا تھا کہ وہ اپنا کام بند کردیں بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، تنویر حسین تنیو کی موجودگی میں پان پراگ اور گٹکے کا کام مکمل طور پر ختم ہوکر رہ گیا تھا تاہم گزشتہ چند ماہ سے یہ کاروبار ایک بار پھر عروج پر پہنچ گیا ہے جس کی بڑی وجہ پولیس کی چشم پوشی بتائی جاتی ہے، ان نشہ آور مصنوعات فروخت کرنے والے تاجروں کی دکانوں پر تھانہ اے سیکشن، بی سیکشن کے پولیس اہلکاردن بھر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس گھناؤنے دھندے میں ملوث عناصر کو پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، ایس ایس پی سکھر امجد شیخ نے سکھر میں جرائم کے خاتمے اور معاشرتی برائیوں کی روک تھام کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے ہیں اور ایک  دو مرتبہ گٹکا فروخت کرنے والے ہول سیلرز کے خلاف کارروائی بھی کی گئی تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کے خلاف کوئی موثر ایکشن نہ ہونے پر نہ صرف وہ آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ کھلے عام گٹکے کا کاروبار کررہے ہیں۔سکھر میں مقامی سطح پر گھروں میں گٹکے بنا کر فروخت کرنے والا ایک تاجر ماہانہ لاکھوں روپے کا گٹکا تیار کر کے سکھر شہر کے تمام علاقوں اور اندرون سندھ کے دیگر اضلاع میں ہول سیل کی بنیاد پر سپلائی کرتا ہے۔پولیس کے علم میں ہر چیز ہے ، مذکورہ شخص پہلے ایک دو مرتبہ پکڑا بھی گیا ہے لیکن پولیس سے مک مکا ہونے کے باعث اس کا یہ مکروہ دھندا آج بھی اپنے عروج پر ہے اور پولیس کارروائی کے بجائے اس کی سرپرستی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ فوڈ لیبارٹری سکھر کے سابق انچارج ڈاکٹر عبدالخالق جتوئی، سابق سول سرجن ڈاکٹر حضور بخش تنیو سمیت دیگر طبی ماہرین کے مطابق ان نشہ آور گٹکو ں کے استعمال سے منہ، گلے کے کینسر سمیت پیٹ کی دیگر بیماریاں پیدا ہونے کا خد شہ رہتا ہے اور جب یہ مضر صحت نشہ آور گٹکے سرکاری فوڈ لیبارٹری میں جاتے ہیں تو ان تمام گٹکوں کے سمپل فیل ہوجاتے ہیں کیونکہ اسمگل شدہ گٹکے اور مقامی سطح پر بنائے جانے والے مضر صحت گٹکوں کے باعث بڑی تعداد میں لوگ کینسر جیسی خطرناک بیماری سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ اور بڑی تعداد میں ایسے بچے جو تعلیمی اداروں میں نہیں جاتے، محنت، مزدوری کرتے ہیں وہ بھی ان نشہ آور گٹکوں کا استعمال کررہے ہیں جو ہماری نوجوان نسل کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ حکومت کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہئے، سکھر کے سیاسی، سماجی ، مذہبی اور عوامی حلقوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سکھر سمیت سندھ بھر میں ان نشہ آور اسمگل شدہ گٹکوں کی آمد کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کریں اور متعلقہ اداروں کے افسران جن کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے سکھر اور بالائی سندھ میں یہ غیر ملکی نشہ آور گٹکے کھلے عام فروخت ہورہے ہیں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
تازہ ترین