بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی وائٹ ہائوس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے ، اس میں امریکا نے پاکستان کے بارے میں بھارتی موقف کی کھل کر حمایت کی ہے ۔ اس اعلامیہ میں جو زبان استعمال کی گئی ، اس سے لگتا ہے کہ یہ بھارت کے کسی انتہا پسند اور پاکستان مخالف رہنما کا بیان ہے اور وہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر رہا ہے ۔ اعلامیہ میں سفارتی اسلوب( Diction ) اور آداب کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ۔ اس اعلامیہ سے یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ اس خطے میں امریکی مفادات اب بھارت سے جڑے ہوئے ہیں اور اب اسے اپنے پرانے اتحادی پاکستان کی ضرورت نہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ؟ اس سوال کا جواب وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے دیا ہے ۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے امریکا بھارت مشترکہ اعلامیہ پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اب پاکستان کو چین اور روس سے تعلقات مضبوط بنانا چاہئیں ۔ خواجہ آصف کی یہ بات درست ہے کیونکہ اب پاکستان کے پاس دوسرا آپشن نہیں رہا کیونکہ جن امریکی مفادات کیلئے پاکستان مسلسل سات دہائیوں سے اپنے مفادات قربان کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خونریزی ، بدامنی اور معاشی تباہی سے دوچار کئے ہوئے ہے ، اسی امریکا نے آنکھیں پھیر لی ہیں ۔ یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اس قدر آسان ہے کہ آپ ایک عالمی بلاک سے جمپ لگا کر دوسرے بلاک یا کیمپ میں چلے جائیں ؟
کچھ لوگ ایران کی مثال دیتے ہیں کہ ایران کبھی اس خطے میں امریکا کا تھانیدار تھا ۔ پھر وہ امریکا کا سب سے بڑا مخالف بن گیا ۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوا ۔ وہاں ایک بہت بڑا انقلاب آیا ، جس نے ایران کے امریکا نواز پورے ریاستی ڈھانچے کو ختم کرکے نیا ڈھانچہ بنایا ۔ ایران میں 1979 ء کے انقلاب سے بہت پہلے ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق نے ایران کے تیل کے ذخائر پر امریکا اور اس کے اتحادی سامراجی ممالک کی کثیر القومی کمپنیوں کو ایران سے نکالنے کی کوشش کی تو مصدق کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا تھا ۔
بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ سعودی عرب میں تو کوئی انقلاب نہیں آیا لیکن سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے تو اچانک امریکا سے علانیہ بغاوت کر دی ہے حالانکہ وہاں کا بھی پورا ریاستی اور شاہی ڈھانچہ امریکی مفادات کی بنیاد پر استوار کیا گیا تھا ۔ ان حلقوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ۔ محمد بن سلمان نے اپنے والد شاہ سلمان کے تخت سنبھالنے اور خود ولی عہد مقرر ہونے کے فورا ًبعد اپنے شاہی خاندان کے خلاف کریک ڈائون کیا ، شاہی خاندان کے کچھ لوگ گرفتار ہوئےاور بہت سے بیرون ملک فرار ہو گئے تھے ۔ محمد بن سلمان سے پہلے 1970ء کی دہائی میں شاہ فیصل نے امریکی کیمپ سے نکلنے ، اسلامی بلاک بنانے اور غیر وابستہ تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو انہیں انکے بھتیجے کے ہاتھوں شاہی محل کے اندر 25 مارچ 1975 ء کو قتل کرادیا گیا تھا ۔ محمد بن سلمان نے امریکا سے دوری اختیار کرنے ، چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے اور ایران کے ساتھ صدیوں سے جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے غیر معمولی اور انقلابی اقدامات بغیر تیاری کے نہیں کئے ۔ انہوں نے ریاستی ڈھانچے کو چلانے والے شاہی خاندان کے خلاف کریک ڈائون سے پرانے ریاستی ڈھانچے پر کاری ضرب لگائی اور اپنی گرفت مضبوط کی ۔
پاکستان کا جو ریاستی ڈھانچہ ہے ، کیا وہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارا ریاستی ڈھانچہ امریکی اور اس کے اتحادی سامراجی ممالک کے مفادات کی بنیاد پر استوار ہے ۔ امریکا نے ترقی پذیردنیا کے جس ملک سے بھی ’’ دوستی ‘‘ کی یا جس خطے میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ، اس ملک اور خطے کو پہلے غیر مستحکم کیا ، وہاں خونریزی کرائی ، اس ملک اور خطے کو جنگوں اور دہشت گردی میں الجھایا ۔ ان کے وسائل دفاع پر خرچ کرادیئے ۔ انہیں اسلحہ بیچا ، ان علاقوں میں سی آئی اےجیسی تنظیموں کے نیٹ ورک مضبوط کئے ۔ پھر عالمی مالیاتی اداروں سے ان کی معیشت کی نام نہاد بحالی کے نام پر ان کو اپنی جکڑ بندی میں رکھا ۔ تیسری دنیا کے امریکی اتحادی ممالک کے ریاستی ڈھانچے کا یہی اسٹائل ہے ۔ چین اور روس عالمی بالادستی کیلئے دوسرا اسٹائل اختیار کرتے ہیں ۔ وہ جنگوں کی بجائے مشترکہ ترقی کا سامراجی ماڈل استعمال کرتے ہیں ، جو بہرحال ترقی پذیر ممالک کیلئے بہترین آپشن ہے ۔ یہ تباہی کی بجائے معاشی استحکام اور خود مختاری کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس میں امریکی ماڈل کی طرح غربت ، بدامنی اور تباہی کی زنجیروں سے جکڑ بندی نہیں ہوتی ۔ کیا ہمارا ریاستی ڈھانچہ چین اور روس کے ماڈل سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
ایک تو پاکستان نے چین اور روس کی طرف آنے میں بہت دیر کر دی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کوشش کی تھی ، اسے ہمارے اس ریاستی ڈھانچے نے عبرت کا نشان بنا دیا ، جو امریکی مفادات کا محافظ تھا ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے چین سے تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کی تو انہیں بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ پاکستان میں جس طرح سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دیا جا رہا ، یہ ہمارے ریاستی ڈھانچے کا بنیادی جوہر ہے ، جس طرح دہشت گردی سے نمٹنے کی پچھلے 30 سال سے حکمت عملی اختیار کی گئی ہے ، یہ ہمارے ریاستی ڈھانچے کی وہ اپروچ ہے ، جو چین اور روس کے معاشی تعاون سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کو معدوم کر دیتی ہے ، جس طرح بلوچستان اور شمالی قبائلی علاقہ جات کے معاملات کو چلایا جا رہا ہے ، اس سے بھی وہ استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا ، جو چین اور روس کے تعاون سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے ۔ جس طرح 30 سال تک کراچی جیسے شہر کو چلایا گیا ، یہ ریاستی اپروچ بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ ایران اور سعودی عرب میں پرانے ریاستی ڈھانچے کے ساتھ ’’ پالیسی شفٹ ‘‘ نہیں ہوئی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کی معیشت مضبوط ہے اور وہ کسی بھی بڑے فیصلے کے معاشی اثرات سے نبردآزما ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان کی معیشت بھی اس قابل نہیں ہے اور آئی ایم ایف کے ذریعے بقول وزیر خزانہ اسحاق ڈار پاکستان کے ساتھ ’’ جیو پولیٹکس ‘‘ ہو رہی ہے ۔ ہمارے ریاستی ڈھانچے میں کوئی بڑی کایا پلٹ نہیں ہوئی ہے ۔ سی پیک کے منصوبوں کو سیکورٹی دینے کیلئے صرف فوج کی بٹالین تعینات کردینا مسئلے کا حل نہیں ۔ پاکستان میں موجودہ ریاستی ڈھانچے کو اپنی اپروچ بدلنی ہو گی ۔ امریکی کیمپ سے تصادم کی مہم جوئی سے بچتے ہوئے چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کیلئے بنیادی دھارے کی سیاسی قوتوں کے ساتھ ایک پیج پر آنا ہوگا۔