• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت عالمی سیاسی بساط پر شطرنج کا دلچسپ کھیل جاری ہے۔،کئی ممالک کی دشمنی، دوستی میں بدل رہی ہےاور بعض ممالک کے درمیان نئی دشمنی کی بنیادیں استوار ہو رہی ہیں۔طاقت اور معیشت کی اس لڑائی کا میدانِ جنگ بدقسمتی سے وہ خطہ بننے جارہا ہے جو پہلے ہی غربت اور افلاس کے مکروہ پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔چین کی معاشی اور سیاسی پیش قدمی کو روکنےکیلئے ایک تو طرف کثیر الملکی اتحاد تشکیل دیے جارہے ہیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی محدود کی جا سکے تو دوسری طرف چین کے سامنے بھارت کو ایک بڑی طاقت کے طور پر کھڑا کیا جا رہا ہے ۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی دوسری مرتبہ امریکہ یاترا پر گئے ہیں۔صدر ٹرمپ کے ساتھ تو انہوں نے ایک عوامی جلسے میں بھی شرکت کی تھی جہاں انہوں نے وہی باتیں کیں جو بھارت کو بھاتی ہیں،اور اب جو بائیڈن نے جس والہانہ انداز میں مودی کا استقبال کیا، کیا یہ معمول کا سفارتی استقبال ہے؟امریکہ میں نریندر مودی کی پذیرائی سے دنیا کے کن ممالک کو کیا پیغام دئیے گئے؟بھارت اور امریکہ کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کا نام لے کر جوہرزہ سرائی کی گئی ،کیا یہ عمل بھی محض بھارت کی سفارتی کامیابی ہے؟اس وقت تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ نہ تو یہ دورہ اتفاقی ہے اور نہ ہی والہانہ پن اچانک امڈ آیا ہے،امریکہ اس وقت جس الجھن میں مبتلا ہے وہ چین کی ابھرتی ہوئی معیشت اور عالمی سطح پر اس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے،گزشتہ چند ہفتوں میں چین نے سفارتی محاذ پر جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، اس نے امریکہ کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔یوکرائن کی جنگ کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے روس کا دورہ کر کے امریکہ کو حیران کردیا۔ابھی اس دورے کی تفصیلات پردہ اخفا میں تھیں کہ بیجنگ نے ایران اور سعودی عرب کے مابین نو سال سے خراب تعلقات دوستی میں بدل دیے۔اس خبر سے مشرق وسطیٰ میں تو خوشی کی لہر دوڑ گئی البتہ یہ خبر امریکہ اور اسرائیل پر بجلی بن کر گری۔ابھی اس خبر کی گونج عالمی میڈیا میں موجود تھی کہ فرانسیسی صدر میکرون نے بیجنگ کا دورہ کر کے یورپ کی طرف سے چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔اور انہوں نے یوکرائن کی جنگ پر امریکی پالیسی سے ہٹ کر بیان دیا۔ ان سب خبروں سے بڑھ کر جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی معاشی طاقت برازیل کے صدر کی دورہ چین کے دوران عدیم المثال پذیرائی نے چینی سفارت کاری کے ایک اور روپ کو آشکار کر دیا۔چین کی اس پیش قدمی کو روکنے کیلئے امریکہ ایک کثیرالجہتی پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اس پروگرام میں بھارت اُس کا سب سے بڑا پارٹنر ہے۔یہی وجہ ہے کہ مودی کو نہ صرف کانگریس میں خطاب کرنے کا موقع فراہم کیا گیا بلکہ ان کے خطاب کے دوران کانگریس کا ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔امریکی صدر کی جانب سے دیئے گئے اسٹیٹ ڈنر میں دنیا کی چوٹی کی پرائیویٹ کارپوریشنز کے سربراہوں نے شرکت کی۔بڑے کاروباری اداروں کے سربراہوں اور سرمایہ کاروں نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔اگرچہ کانگریس سے خطاب کے دوران 75 اراکین کانگریس نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج بھی کیا اور بھارتی وزیر اعظم کے دورے کے دوران امریکہ میں وسیع پیمانے پر بھارت مخالف مظاہرے بھی کیے گئے لیکن امریکی انتظامیہ نے ان تمام مظاہروں اور احتجاج کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کی پذیرائی کی۔یوکرائن جنگ کے دوران بھارت کی نام نہاد غیر جانبداری کو بھی امریکہ نے نظر انداز کیا اور چین کا راستہ روکنے کیلئے بھارت کو تیسری بڑی معیشت کے طور پر دنیا کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کوشش کی۔امریکہ سلامتی کونسل میں توسیع کا خواہش مند بھی ہے اور اس توسیع کا سب سے پہلا فائدہ وہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنا کر دینا چاہتا ہے۔امریکہ کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ بھارت اس وقت دنیا کی ایک بڑی منڈی ہے۔دنیا بھر کے ارب پتی افراد کی فہرست میں کئی بھارتیوں کے نام شامل ہیں۔بھارتی حکمرانوں نے یہ منزل ستر سال کی مسلسل محنت کے بعد حاصل کی ہے۔بھارت اور پاکستان ایک ہی دن آزاد ہوئے تھےلیکن ہماری کم نصیبی دیکھیے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد جو بھی حکمران ہمیں میسر آیا اُس نے وطن عزیز کو ترقی سے آشنا کرنے کے بجائے تنزلی کی طرف دھکیلا، لوگوں کا ایک بے سمت ہجوم ہے جس کا نہ کوئی رہنما ہے اور نہ ہی منزل ۔ہماری معیشت تین اور چار ارب کے درمیان ہچکولے کھا رہی ہے،ہمارے وزیر خزانہ سے کوئی سوال کرتا ہےتو وہ مارنے کو دوڑتے ہیں،وزیر اعظم سے سوال ہوتا ہے تو سوال گندم جواب چنا کے مصداق بات گول کر جاتے ہیں،ہمارے ایوانوں میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کا تصور ہی نہیں۔، ہمارے محترم وزیر دفاع فرماتے ہیں کہ مودی کے دورہ بھارت سے پاکستان کو کوئی پریشانی نہیں، پریشانی ہو بھی کیسے؟ اس کیلئے تو حساس دل و دماغ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ہماری اشرافیہ محروم ہے، پاکستان کو فلاحی ریاست کے بجائے ایک سیکورٹی ریاست بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔بھارت کے دباؤ میں آ کر امریکہ پاکستان پر الزام تراشیاں کرتا ہےاور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں۔بھارت دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت بننے جارہا ہےاور ہم کشکول لیے در در کی بھیک مانگ رہے ہیں،احساسِ زیاں کا یہ عالم ہے کہ تباہ حال معیشت کے باوجود چیئرمین سینٹ کی مراعات میں شرمناک اضافہ کر دیا گیا،سرکاری خرچ پر اراکین پارلیمنٹ کو حج پر بھیجا جا رہا ہے،کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

تازہ ترین