• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے تقریباََ 13سال سے اپنی گھیرائو جلائو ، نفرت اور انتشار کی سیاست سے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست ، معیشت اور معاشرتی اخلاقیات کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔یہ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف نہ صرف سرِ عام گالم گلوچ کی گئی بلکہ سوشل میڈیا پر ذاتی حملوں اور دشنام طرازی میں اختلاف ِ رائے کرنے والوں کی قابلِ احترام خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔ گویا جہاں عمران خان نے جھوٹ ، بہتان طرازی ، صبح شام یو ٹرن لینے اور مذہبی بلیک میلنگ کے نئے ریکارڈ قائم کیے وہیں اس نے سیاست میں دو عجوبے بھی متعارف کروائے ۔ ایک سیاست میں جادو ٹونے ، عملیات ، سفید کالی چادریں اور سر پر کالی بالٹی جیسی دورِ جاہلیت کی خرافات اور دوسرا اپنے ایسے پرستار جن کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ جو روبوٹس کی طرح سوچے سمجھے بغیر عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید سنتے ہی مخالف فریق پر چڑھ دوڑتے ہیں چاہے ان کے سامنے برسوں پرانے دوست ، عزیز و اقارب حتیٰ کہ اپنے بہن بھائی یا ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ چاہے ان سے مخاطب نہ بھی ہوں۔ لیکن وہ اسے اپنا مقدّس فرض سمجھتے ہیں کہ وہ نہ صرف آپ سے براہِ راست مخاطب ہوتے بلکہ اس نفرت کے اظہار کو بھی نہ چھپاتے جس کے تحت وہ مخالف فریق کونیست و نابود کردینے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہو تے ہیں۔ آپ ان سے جان چھڑانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن وہ کمبل کی طرح آپ کی جان چھوڑنےکیلئے تیار نہیں ہوتے ۔ اور اپنے ’’ مرشد ‘‘ کے ایسے ایسے بے سروپا کارنامے بیان کرتے ہیں جو حقیقت میں اس کے خلاف ایک ’’ چارج شیٹ ‘‘ ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان ’’ مردانِ صف شکن ‘‘ میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں۔ جن کے نزدیک عمران خان ایک ایسا دیوتا یا مسیحا ہے جس کے اندر نہ صرف یہ کہ کوئی خامی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا کامل انسان بھی ہے جو دنیا کا ہر کام کر سکتا ہے۔ جیسا کہ وہ خود دعویٰ کرتا ہے کہ تاریخ ، جغرافیہ ، سیاسیات اور مذہب ، غرض کوئی میدان ایسا نہیں جس میں اسے عبور حاصل نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسکی ریسرچ کے مطابق ہمارے ہاں سال میں بارہ مہینے نہیں بارہ موسم ہوتے ہیں ، جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملتی ہیں، سیاسی نظام میں بیک وقت مغربی جمہوریت، محمد بن سلمان کی بادشاہت اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی بلا شرکت ِ غیرے سربراہی اس کا سیاسی مسلک ہے۔ صرف یہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ ریاست ِ مدینہ کا بھی داعی ہے۔ جس کیلئے انسان کے ذاتی کردار کی انتہائی بلندی ایک شرطِ اوّلین ہے۔ اس کے پرستار ایسے سامعین ہیں جو اس کے ہر لا یعنی اور بے وزن مصرعے پر بھی دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ شاید سیاست کے طالب علموں کو ہضم ہو جاتا اگر ہم نے اس کا پونے چا رسال کا تاریک دور نہ دیکھا ہوتا۔ جب ایک تاریخی دھاندلی کے ذریعے اسے برسرِ اقتدار لایا گیا تو اس وقت پاکستان کی معیشت تقریباََ 6جی ڈی پی کی شرح سے ترقی کر رہی تھی۔ بجلی کے نئے کار خانے لگانے جا رہے تھے، سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔ دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا تھا۔ دوست ممالک کے ساتھ اچھے تعلّقات استوار ہو چکے تھے، آٹا 35روپے، گھی 150روپے ، پیٹرول اور ڈالر ایک سو روپے کے قریب تھا۔ جب آپ تشریف لائے تو پہلے سال ہی شرح نمو منفی ہوگئی جو 1952کے بعد پہلی مرتبہ ہوئی ، سی پیک پر کام روک دیا گیا، سعودی عرب جیسے دوست ملک کو اتنا ناراض کر دیا گیا کہ سعودی حکومت نے عمران کو دئیے ہوئے اپنے طیارے سے اتار کر طیارہ واپس بلا لیا ،تاریخ کے سب سے زیادہ یعنی اکیّس ہزار ارب روپے کے قرضے لیے گئے جبکہ ایک بھی بڑا پروجیکٹ شروع نہ ہوا۔ آپ نے جاتے جاتے آئی ایم ایف سے نہ صرف معاہدہ توڑ کر پاکستانی معیشت پر کاری ضرب لگائی بلکہ اپنے وزیرِ خزانہ کے ذریعے آئی ایم ایف پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ اس سب کے باوجود عمران کے پرستار اسے صرف پاکستان ہی نہیں ، دنیا کا عظیم ترین سیاست دان قرار دینے پر بضد ہیں جس نے اسمبلیاں توڑنے جیسی فاش سیاسی غلطی کی اور اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارلی۔ عمران خان ایک سیاسی لیڈر نہیں بلکہ ایک (Cult)فرقے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور Cultکا جو عبرت ناک انجام ہوتا ہے اس کے تذکرےکیلئے تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ جس کیلئے ایک علیحدہ کالم درکار ہے۔ عمرانی پرستاروں سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا عمران خان کو آرٹی ایس بٹھا کر دھاندلی سے نہیں لایا گیا تھا؟ جس کا اعتراف لانے والے اب برملا کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے نہیں۔ آر ٹی ایس تو عمران کی دو تہائی اکثریت روکنےکیلئے بٹھایا گیا تھا۔ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ کرپشن کے خلاف جہاد کے نام پر آنے والے عمران کے دور میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 24درجے اضافہ ہوگیا ۔ تو عمرانی پرستار کہتے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل والے جھوٹ بولتے ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ لینے کے باوجود کوئی ایک بھی بڑا پروجیکٹ شروع کیوں نہ ہو سکا۔ تو وہ لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگر عمران خان کا دور اتنا ہی سنہری تھا تو وہ اپنی حکومت کے دوران تیرہ میں سے بارہ الیکشن کیوں ہار گیا؟ سچ کہتے ہیں کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔

تازہ ترین