آخرکار حکومت ِپاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اسٹاف لیول کا معاہدہ طے پا ہی گیا،اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرض ملنے کا اعلان خود وزیراعظم نے ٹی وی پر ا ٓکر کیا۔حکومتی جشن پر عوام انگشت بدنداں ہیں کہ پورا حکومتی نظام کس بات پر جشن منا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے 126ارب ڈالر کے قرضوں، امریکہ اور دیگر ممالک سے 70ارب ڈالر کی مجموعی امداد کے باوجود،آج بھی پاکستانی عوام کی حالت زار میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی،معیارِ زندگی کے اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا 132واں نمبر ہے،دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان آج بھی دوسرے نمبر پر ہے اور 2022ءمیں 8لاکھ ہنرمند نوجوان روزگار کی تلاش میں قانونی طریقے سے ملک چھوڑ کر چلے گئے، پاکستان کی ریاست ایسے بے فیض انتظامی ڈھانچے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جس کے بوجھ تلے دب کر ریاستی معیشت آئی سی یو میں پڑی ہے،جس بیل آؤٹ پیکیج پر جشن کا سماں ہے حقیقت یہ ہے کہ اگرفوج مداخلت نہ کرتی تو شاید یہ معاہدہ بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پاتا،اس معاہدےسے قبل ملک میں سرمایہ کاری کے حالات بہتر بنانے کیلئے بنائی گئی کونسل میں آرمی چیف موجود تھے جبکہ فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے میجر جنرل لیول کے آرمی افسر کا تقرر اس امر کا بین ثبوت ہے کہ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ پاک فوج کو بادلِ ناخواستہ معاشی سرحدوں کی نگرانی کا فریضہ بھی سرانجام دینا پڑ رہا ہے۔اس وقت پاکستانی معیشت ایسے مافیاز کے قبضے میں ہے جنہوں نے معیشت کا پہیہ جام کر رکھا ہے۔ سرکاری خزانے سے 17 ارب ڈالر چوسنے والی یہ جونکیں ریاست پاکستان کو روز بروز کمزور کر رہی ہیں،ایسے حالات میں آئی ایم ایف کے ساتھ ساڑھے تین ارب ڈالر کا معاہدہ ہو یا 100 ارب ڈالر کا،پاکستانی عوام کو اس سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟البتہ یہ ضرور ہے کہ اس معاہدے کے بعد پاکستانی معیشت خود سانس لینے کے قابل ہو جائے گی،افراطِ زر کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی،زر مبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی،لیکن عوامی ریلیف تو محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔اس معاہدے کے اعلان کے دوران نہ جانے کس ترنگ میں میاں شہباز شریف نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ آخری معاہدہ ہوگا۔تو ہمیں 1998 میں موجودہ وزیراعظم کے بڑے بھائی یاد آگئے جنہوں نے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے، آج انہی کے برادر خورد نے ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے قرضے کے معاہدے کا بخوشی اعلان کیا۔آئی ایم ایف کےسامنے کیا جانیوالا یہ کشکول کم و بیش 30 مرتبہ توڑا اور جوڑا جا چکا ہے۔قیام پاکستان کے بعد اکثر حکمرانوں نے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔تین مرتبہ ایوب خان آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ذوالفقار علی بھٹو چار مرتبہ،جنرل ضیاء الحق ڈالروں کے سیلاب کے باوجود دو مرتبہ،محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں ادوار میں پانچ مرتبہ،میاں نواز شریف تینوں ادوار میں چار مرتبہ، مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈالروں کی چکاچوند کے باوجود دو مرتبہ جبکہ صدر زرداری ایک مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکے ہیں۔ یہ تفصیل لکھتے ہوے مرزا غالب یاد آگئے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پے درپے قرضوں کے باوجود حالات بدلے اور نہ ہی حکومتوں کا چال چلن درست ہوا ۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار بڑے طمطراق کے ساتھ ایک طرف تو آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھاتے رہے اور یہ بھی فرماتے رہے کہ ہمارے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پلان بی تو کیا پلان اے بھی موجود نہ تھا۔آئی ایم ایف نے اپنا پلان دیا اور روڈ میپ بھی۔ اب پوری قوم اس معاہدے کو بھگتے گی۔یہ معاہدہ اس حکومت نے کیا ہے جس کی طبعی عمر 12 اگست کو ختم ہو جائے گی۔پھر 60 یا 90 دن کیلئے نگران حکومت آئے گی۔اس کے بعد جو بھی منتخب حکومت ہوگی اس معاہدے کا سارا بوجھ اس کے کندھوں پر ہوگا۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں رد و بدل کے باوجود عوام کیلئے پٹرول سستا نہیں کیا گیا۔لیوی ٹیکس 50 روپے سے بڑھا کر 55 روپے کر دیا گیا۔اور ابھی آئندہ تین ماہ کے اندر پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی چارجز بتدریج 60 روپے تک بڑھائے جائیں گے۔اور اس کا سارا بوجھ عوام اٹھائیں گے۔اس معاہدے کے تحت اسٹیٹ بینک اس بات کا پابند ہے کہ وہ کرنسی مارکیٹ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔اس نوعیت کی پابندیوں کی تفصیلات طویل ہیں لیکن یہ طے ہے کہ عوام پر ایک اور مہنگائی بم گرنے والا ہے۔پارلیمان نے قومی بجٹ کی منظوری کے چند دن بعد ہی دو سو پندرہ ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی منظوری دے دی۔ جبکہ مختلف شعبوں کے مالیاتی معاملات میں پچاسی ارب روپے کی کٹوتیاں بھی منظور کر لیں۔عوام کی پیٹھ پر یہ بوجھ لادنے کا عمل چند گھنٹوں میں مکمل کر لیا گیا لیکن اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی نہ آنے دی۔۔ٹیکس چوری اور حکومتی شاہانہ اخراجات کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ہے۔اب میثاق معیشت کریں تو کس سے؟اس بدحالی کا علاج کون کریگا؟ موجودہ حکمران اتحادسے کسی ریلیف کی توقع رکھنا عبث ہے۔لیکن امید برقرارہے۔کبھی تو خوشحالی آئے گی، کبھی تو میرا وطن قرض کے چنگل سے آزاد ہوگا،کبھی تو نیک نیت لوگ مسند اقتدار پر فائز ہوں گے....امید برقرار ہے۔