• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک کے منظر و پس منظر کا تسلسل جاری تھا کہ درمیان میں چیئرمین سینیٹ و اراکین کی تاحیات مراعات ، تنخواہوں اور الاؤنسز کا بل اسپیڈ بریکر بن کر آڑے آگیا۔ پہلے اس سے دو دو ہاتھ کرلیں پھر آگے بڑھیں گے۔ ہم غربت کے ہاتھوں مارے عوام کو امید و حوصلہ، دلاسے تک دیتے رہے، انہیں زندہ رہنے کے ہنر سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ مایوسی کے اس دور میں عوام کو امید کی کوئی راہ دکھا سکیں۔ انہیں سمجھائیں کہ نااہل حکمرانوں کے ہاتھوں تباہی تو بہت ہوچکی جو کچھ بچا کھچا ہے اسے ہی سنبھال لیں تو غنیمت ہے۔ لیکن صاحب اقتدار و اختیار لوگ ہوش کے ناخن ہی نہیں لیتے۔ ابھی چند روز قبل ہی تویہ نیب کی پیشیاں بھگت رہے تھے، جیلوں میں بند تھے۔ یہ اسے انتقام کہتے تھے اس وقت کے صاحب اقتدار اسے احتساب کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اسی انتقام و احتساب کی تکرار میں پاکستان کا دیوالیہ نکل گیا۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ نہ احتساب والوں کا اقتدار بچا نہ انتقام والوں کا احتساب ہوا۔ پھر احتساب والوں کو اقتدار سے نکال کر صاحب اقتدار بننے والے ایک دوسرے کے شراکت دار بنے تو توقع یہی تھی کہ اس مختصر مدتی دورِ اقتدار میں غریبوں کا کچھ بھلا ہوگا لیکن سب خواب برباد ہوگئے۔ آخر کب تک آسودہ حال حکمران بدحال عوام کی امیدوں کا خون کرکے انہیں خون کے آنسو رُلاتے رہیںگے۔ پاکستان کوڑی کوڑی کا محتاج ہوچکا۔ قوم کا بچہ بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہے اور یہاں حالت یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپنی اگلی پچھلی نسلوں کو سرکاری خزانے سے تاحیات پالنے کا اہتمام کرلیا ہے۔ کیا منتخب ایوانوں میں بیٹھی اشرافیہ نے پاکستان کو شاہی یتیم خانہ سمجھ رکھا ہے کہ جہاں ان کی اولادیں دن رات موج مستی کریں اور ہم غریب خانے کے مکین ان کے غلام بن کر ان شاہی یتیموں کواپنا پیٹ کاٹ کر پالیں ۔ ایک طرف ملک دیوالیہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف پارلیمان میں بیٹھی ہماری اشرافیہ کو اپنی آل اولاد کی فکر کھائے جارہی ہے۔ اور جن اولادوں کا وہ تحفظ کررہے ہیں کل وہ قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی آئیں گے یا نہیں؟ اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ چین پاکستان کو انگلی پکڑ کر دنیا کے ساتھ معاشی طور پر مستقل بنیادوں پر اس طرح جوڑنا چاہتا ہے کہ چین سے جو سازو سامان ، مشینری، تیار مصنوعات دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں وہ برق رفتاری سے شاہراہ ریشم سے گزرتے ہوئے گوادر پورٹ تک پہنچیں اور وہاں سے قانونی مراحل مکمل ہونے کے بعد بلارکاوٹ ایران ، عراق ، ترکیہ، سعودی عرب، شام، مصر اور ان ممالک کے بحری راستوں سے منسلک یورپی ممالک تک بآسانی پہنچائی جا سکیں۔ آپ دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں کہ سامان کی ترسیل کا یہ سلسلہ آنیوالے دنوں میں کس طرح دنیا کے کونے کونے تک پھیل جائے گا۔ آپ کچھ دیرکیلئے یہ تصور کریں کہ چین کے صنعتی شہروں سے چلنے والے ہزاروں کارگوٹرکوں کی طویل قطاریں سی پیک منصوبے کے تحت بنائی گئی ہائی ویز، موٹرویزسے روزانہ کی بنیاد پر گزرتی نظر آرہی ہیں۔ اقتصادی راہداری پر کسٹم چیک پوسٹوں کی مد میں اربوں روپے کی آمدنی ہو رہی ہے۔ ٹول پلازوں پر ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔ اس راہداری سے منسلک راستوں پر نت نئے کاروباری مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کو تعلیمی معیار کے مطابق روزگار مل رہا ہے۔ گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں کاروباری لین دین بڑھ رہا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ چین وقت اور مصنوعات کی لاگت میں کمی کی خاطر پاکستان کی سستی افرادی قوت سے کام لے کر سی پیک راہداری منصوبے میں شامل صنعتی علاقوں میں پاکستانی صنعت کاروں سے شراکت داری کی بنیاد پر اپنی انڈسٹری اور ٹیکنالوجی لگائے گا اور یہاں تیار ہونے والی مصنوعات گوادر پورٹ کے ذریعے آسانی سے پہنچانے کا انتظام کیا جائے گا۔ کیا اس خواب کے پورا ہونے پر ہمیں کسی امریکہ، برطانیہ، یورپ اور آئی ایم ایف کی ضرورت باقی رہے گی؟ ہم مقروض ضرور ہیں لیکن اپاہج نہیں لیکن آزمائش شرط ہے۔ خلوصِ نیت، دیانت داری، حب الوطنی اس کے بنیادی اجزاءہیں۔ حکمران صاحب ِاقتدار و اختیار، طاقت ور لوگ اگر یہ تہیہ کرلیں کہ آئندہ دس بیس سال میں ہم نے پاکستان کو اقتصادی و معاشی طور پر طاقت ور بنانا ہے اور امریکی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکنا ہے تو چین کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑناکوئی مہنگا سودا نہیں۔ چین سے ترقی کا مکمل روڈ میپ لیا جاسکتا ہےالبتہ ”میثاق معیشت“ کے تحت اس پر عمل درآمدیقینی بنانا ہوگا، سی پیک کشمیر کی طرح پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے اور ایٹم بم کی طرح ہمارا معاشی حصار بھی۔ جمہوریت کا تسلسل معاشی استحکام سے جڑا ہے۔ پاکستان کی بقااسی میں ہے کہ جمہوریت بھی چلے اور معیشت بھی۔ سی پیک کے پس منظر میں بائیڈن ، مودی گٹھ جوڑ مستقبل میں کیا گُھل کھلائے گا، امکانات و خطرات کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔(جاری ہے)

تازہ ترین