مولانا نعمان نعیم
سوئیڈن میں چھ ماہ کے دوران دوسری بار اسلامو فوبیا کے شکار انتہاپسندوں کی جانب سے قرآن کریم کی بے حرمتی کا مذموم واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے کی عالم اسلام ہی نہیں مغربی دنیا میں بھی شدید مذمت کی جارہی ہے ، یہ نفرت انگیز اور متعصبانہ کارروائی مذہبی رواداری ، باہمی احترام اور تہذیب و شائستگی کی اعلیٰ انسانی اقدار کے سراسر منافی ہے۔ مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے علاوہ یورپی یونین نے بھی دنیا کے ڈھائی ارب مسلمانوں اور ہر شائستہ اور مہذب انسان کی دل آزاری پر مبنی اس اشتعال انگیر کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اس واقعے کے تقریباً 200عینی شاہدین کے مطابق اسٹاک ہوم کی مسجد کے باہر دو مظاہرین نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی۔ قرآن پاک کی بے حرمتی سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اسلام کی مقدس کتاب کی توہین سے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ یہ عمل دنیا میں اسلاموفوبیا کی خطرناک سطح کوظاہر کرتاہے،عالمی برادری اسلاموفوبیا کے خلاف مشترکہ عزم کامظاہرہ کرے۔ مذہبی منافرت کی بنیاد پرقرآن کریم کی بے حرمتی کا واقعہ انتہائی شرم ناک اور مذموم حرکت ہے۔
بلاشبہ، قرآن پاک کتاب ہدایت ،کتاب نور، کتاب انقلاب، آخری آسمانی صحیفہ ہے جو اللہ کریم نے اپنے پیارے نبی و رسول خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو پوری انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کےلیے عطا کی ہے، اس کی بے حرمتی کسی صورت میں برداشت نہیں کی جاسکتی ۔ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اسلام کی مقدس کتاب کی توہین سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ یہ عمل مغربی دنیا میں اسلاموفوبیائی منافرت کوظاہر کرتا ہے۔
اس سے قبل فرانس میں سرکاری سطح پرخود ساختہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں پیغمبراسلام ﷺکے گستاخانہ خاکے دنیا کے امن و امان کو برباد کرنے کی ایسی سازش تھی جو ہر مذہب کے سنجیدہ و باشعور لوگوں کے نزدیک انتہائی قابل مذمت ہے۔ مغرب میں اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام امن و سلامتی اور رواداری کا دین ہے اور اسلام کے پیغمبر حضرت محمدﷺ نبی رحمت اورمحسن انسانیت ہیں۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیری مذہب ہے ،اس کی تعلیمات تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں، اسلام صرف کسی خاص طبقے، تہذیب اور رنگ و نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں بناتا، بلکہ تمام انسانوں سے خطاب کرتا ہے، یہ دین رحمت ہے۔ چنانچہ لفظ اسلام کے معنی ہی سلامتی کےہیں، پھر اسلام جس وحدہ لاشریک رب کومعبود قرار دیتا ہے، وہ رحمٰن و رحیم بلکہ ارحم الراحمین ہے، اسلام جس ذات کو پیغمبر مانتا ہے،وہ رحمۃ للعالمین ﷺہیں، اسلام کا قبلہ امن کا گہوارہ ہے، لہٰذا اسلام کے معنی،اس کے مقاصد وتعلیمات، اس کا آغاز و ارتقاء اور اس کی اشاعت تمام ہی امن و سلامتی کے ضامن ہیں، تو اس مذہب سے زیادہ امن وسلامتی کہاں ہوسکتی ہے؟
ارشادِ ربانی ہے: ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح ؑکو دیا گیا،اور جس کی وحی آپ ﷺکو کی گئی، اور جس کا حکم موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔(سورۂ شوریٰ) ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرامؑ کا رہا ہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے، ارشاد ربانی ہے، ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ (سورۂ آل عمران) ایسےدین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقے کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے، تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔اسلام عالمی اور آفاقی مذہب ہے، اس کی تعلیمات تمام افرادِ بشر کے لیے ہیں، یہ کسی خاص طبقے، علاقے،تہذیب یا رنگ و نسل کے لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا، بلکہ یہ تمام انسانوں سے خطاب کرتا ہے ،یہ سب کے لیے دین رحمت ہے۔قرآن کریم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے، ارشادِ ربّانی ہے:’’اور(اےپیغمبر!)ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔‘‘ (سورۃالانبیاء)
سورئہ احزاب میں فرمایا گیا:’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺکی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘ یعنی صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات ہی عقائدو افکار، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، سیاست، معاشیات،غرض ہر شعبۂ زندگی میں کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے۔ سرکارِ دو عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: میں سراپا رحمت ہوں، اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔(جامع صغیر)
ارشادِ ربّانی ہے’’اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ، تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، اللہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات)
سورۃ المائدہ میں ارشادِ رب العزّت ہے:ترجمہ:’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرو، انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے تمام کام سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔ رواداری کے سلسلے میں یہ آیت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے کہ رواداری کو عدل کا مترادف قرار دیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ مذہب، تہذیب، ثقافت، زبان یا رنگ و نسل میں اختلاف رکھنے والے ہر شخص کے ساتھ خواہ وہ دوست ہو یا دشمن اس کے ساتھ آپ عدل و انصاف کا معاملہ کریں، اس کے مذہب وغیرہ کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے، نہ کسی طرح کی زیادتی یا ظلم روا رکھا جائے۔ آیت کریمہ کا مطلب یہی ہے کہ کسی قوم سے تمہاری عداوت اور دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کو چھوڑ دو، بلکہ تمہیں تو ہر حال میں انصاف ہی کرنا ہے۔
اس لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے اور دوسروں کے مذہب ، عقائد و نظریات وغیرہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے اور ان کے ساتھ مذہبی، سیاسی، فکری اور علمی رواداری کا معاملہ کیا جائے۔دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اساس اور بنیاد امن و سلامتی اور مذہبی رواداری پر قائم ہے۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کا ایک غیر مسلم غلام تھا، آپ کی دلی خواہش تھی کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوجائے تو اسے کوئی ذمے داری دے دی جائے، آپ نے اس سے بار ہا اپنی خواہش کا اظہار بھی فرمایا، لیکن اس نے ہمیشہ انکار کیا، حضرت عمرؓ اس کے انکار پر ہمیشہ یہی فرماتے:’’لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدَّیْن‘‘پھر آپ نے اسے آزادکردیا۔(کتاب الاموال)
ارشاد ربانی ہے:ترجمہ:’’اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کرکے دعوت دو‘‘۔(سورۃ النحل) اگر کسی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی رہتے ہیں تو مسلمانوں کو اسلام کی یہ ہدایت ہے کہ وہ امن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات و رواداری، ہمدردی ویک جہتی، فیاضی اور انسانیت نوازی پر مشتمل اسلامی تعلیمات سے غیر مسلم حضرات کو روشناس کرائیں اور انہیں موثر نصیحت اور حکمت کے ساتھ دین کی دعوت پیش کریں، لیکن کسی طرح دباؤ ڈالنے اور زور و زبردستی کی کوشش نہ کی جائے، اگر وہ نہ مانیں اور مذہب کے سلسلے میں مذاکرات اور بحث و مباحثہ کرنا چاہیں تو نہایت فراخ دلی اورخوش اسلوبی کے ساتھ مذہبی گفت و شنید ہونی چاہیے۔ اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے، تا کہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی پر سکون زندگی نصیب ہو۔