دنیاکے دانشور،کرہ ارض کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور انکا خیال ہے کہ آنیوالے وقت میں ماحولیاتی تبدیلیوں ،دولت کی غیرمساوی تقسیم اور جنگ و جدل کیوجہ سےیہ دنیارہنےکےقابل نہ رہےگی۔2050ء میں دنیا کی مجموعی آبادی آ ٹھ ارب سے بڑھ کر دس ارب ہو جائے گی اورقابل غور بات یہ ہے کہ جن نو ممالک کی آبادی سب سے زیادہ بڑھے گی، ان میں انڈیا، نائیجیریا، پاکستان، ایتھوپیا، یوگنڈا، تنزانیہ ، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، انڈونیشیا اور امریکہ شامل ہیں۔ یعنی اس بڑھتی ہوئی آبادی اور غربت کا سب سے زیادہ اثر تیسری دنیا کے ممالک پر ہوگا۔جبکہ آج دنیا کی بیالیس فیصد جی ڈی پی پر امریکہ اور چین قابض ہیں اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2050ء تک ان دونوں ممالک کا حصہ پچاس سے ساٹھ فیصد ہوجائے گا۔آج دنیا کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مستقبل میں کس طرح دولت کی تقسیم کو مساوی بنایا جا سکتا ہے۔ چین نے اپنی حکمت ِعملی امریکہ سے بالکل مختلف رکھی ہے ۔ وہ ٹیکنالوجی کے حصول کے ذریعے امریکہ سے آگے نکلنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈالر کی بین الاقوامی اجارہ داری کو ختم کر کے دنیا کے اقتصادی نظام پر اپنی گرفت بھی مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ چین پوری کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ کا ساتھ دینے والے ملکوں کے ساتھ تجارت بڑھائے اور تعلقات بہتر کر کے امریکہ کی اجاہ داری کم کر سکے۔ وہ یوکرین جنگ میں روس کا اس لئےساتھ دے رہا ہے کہ چین پر امریکہ کا دبائو کم ہواور یورپین ممالک روس کو مزید غیرمستحکم نہ کر سکیں۔ وہ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے منصوبے پر عمل پیرا ہو کر امریکہ کے مقابلے میں ایک نیا ترقیاتی ماڈل پیش کر رہاہے جس سے دنیا کے دوسرے ممالک بھی اقتصادی طور پر استفادہ کر سکتے ہیں جس سے چین کی بین الاقوامی حیثیت بھی مزیدمستحکم ہو جائے گی۔ یہ منصوبہ چین نے اس وقت شروع کیا جب امریکہ ا فغانستان میں جنگ پر 2.4ٹریلین ڈالر خرچ کر رہا تھا۔ بظاہر اتنا پیسہ لگانے کے باوجود امریکہ یہ جنگ ہار گیا لیکن اگر عمیق مطالعہ کیا جائے تو امریکہ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں اور ڈیفنس کنٹریکٹر ز یہ جنگ جیت گئےکیونکہ اسوقت امریکی کانگریس کے51ممبران اور ان کی بیویوں کے پاس بلین ڈالرز کے ڈیفنس شیئرز تھے، امریکہ جب بھی کسی جنگ میں حصہ لیتا ہے تو ان شیئرز پر چوگنا منافع ملتا ہے۔ اگرہم کو 2050تک اس دنیاکو امن اور تقابلی خوشحالی کا گہوارہ بنانا ہے تو امریکہ کو اپنے اسلحے کی فراوانی اور جنگ کے ذریعے عالمی بالادستی کے تصور کو خیر باد کہنا ہوگا۔ بلوم برگ کے ایک تجزیے کے مطابق پینٹاگون نے 2020ء میں چار سو پینتالیس بلین ڈالرز کے کنٹریکٹ دیے جو 2016ء کے مقابلے میں 45فیصد زیادہ تھے۔یہ پیسہ انہی کارپوریشنز کو ملتا ہے جو الیکشن میں ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنزکو زیادہ سے زیادہ فنڈ دیتی ہیں۔امریکہ میں یہ اشرافیہ چند ارب پتیوں اور ایک ہزار کارپوریشنز کا نام ہے جوپوری دنیا میں اپنی مرضی کے قوانین آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے نافذ کرتی ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ چین نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے امریکہ کی اس اجارہ داری کو کمزور کیا ہے ۔ جسکااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرین کی جنگ کے بعد امریکہ نے روس پر جو پابندیاں لگائیں اسکو دنیا کے زیادہ تر ممالک نے نافذکرنے سے انکار کر دیا ۔54افریقی ممالک ،32لاطینی امریکی ممالک اور22مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں سے کسی نے بھی یہ پابندیاں روس پرنافذ نہ کیں۔ 48ایشین ممالک میں سے صرف جنوبی کوریا، سنگا پور اور جاپان نے ان پابندیوں کا نفاذ کیا جبکہ 16بحیرہ کاہل کے جزیرائی ممالک میں سے صرف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہی اس پر عمل در آمد کر رہے ہیں۔ یوں یورپ کو چھوڑ کر دنیا کے 175ممالک میں صرف 5ممالک نے ہی یہ پابندیاں نافذ کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ جبکہ ان 175ممالک میں سےچین140ملکوں کے ساتھ بڑے پیمانے کی تجارت کر رہا ہے ۔ ان اعدادوشمار سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح امریکہ ہتھیاروں کی فراوانی اور جنگ و جدل کو بڑھا کر دنیا پر اپنا تسلط قائم کر نا چاہتا ہے جبکہ چین ’ون بیلٹ ون روڈ‘ اور تجارت کے فروغ کے ذریعے امریکی تسلط کوکمزور کر رہاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ چین نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بحال کروائے اور اسی طرح اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان بھی ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ روس اپنے ایشین دوست ممالک کوتیل کی فراہمی ڈالر کی بجائے یوان میں کر رہا ہے جبکہ بھارت کو بھارتی کرنسی میں تیل فراہم کر رہا ہے۔دوسری طرف اگست کے مہینے میں برِکس BRICSممالک کا جنوبی افریقہ میں سربراہی اجلاس ہو رہا ہے جہاں بریکس کی نئی کرنسی کا اعلان کیا جائے گا اور اگر یہ کرنسی بین الاقوامی مارکیٹ میں را ئج ہو گئی تو ڈالر اور یورو کو بہت بڑا دھچکا لگے گا ۔ سعودی عرب، روس اور ایران دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک ہیں اور اگر انہوں نے برکس کی کرنسی کواپنا لیا توامریکہ اور یورپ کی اقتصادی اجارہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اس سربراہی اجلاس کو روکنے کیلئے امریکہ سائو تھ افریقہ پرپابندیاں عائد کر رہا ہے جس کی لاگت تقریبا32بلین ڈالرزہے لیکن سائوتھ افریقہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
چین، امریکہ کی سرد جنگ نے دنیا کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔دنیا کے تمام ممالک کو ملکر امریکہ کو جنگ کی بڑھوتری سے روکنا ہوگا تاکہ 2050ء تک دنیا کے تمام ممالک نہ صرف مجموعی پیداوار میں حصہ دار بن سکیں بلکہ فلاحی ریاست کے تصور کے ساتھ زندہ بھی رہ سکیں۔