پاکستانی معیشت اور مالیاتی نظام اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالرز کی نئی قسط ملنے کے بعد بیرونی قرضے 130 ارب ڈالرز سے زائد ہو جائیں گے جبکہ مقامی طور پر حکومتی قرضوں کا حجم بیرونی قرضوں سے تقریباً دگنا ہے۔ ایسے میں معیشت کے سنبھلنے کی باتیں سنانا قوم کو محض بے وقوف بنانے اور پاکستان کو مزید مشکلات میں دھکیلنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
قرض ادا کرنے اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے مزید قرض لینے کی پالیسی سبھی حکومتوں کی رہی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ اگر ہم نے اپنی اس روش کو تبدیل نہ کیا تو پھر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سےہمارے سروں پر منڈلاتے وہ سبھی خدشات سچ ثابت ہونے میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ اور آنے والی ہر حکومت قرضوں سے چھٹکارا پانے کے لئے خود انحصاری کے کٹھن راستے کا انتخاب کرے۔ جس کے تحت حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرے، درآمدی بل کم کیا جائے، ملکی معیشت کے حجم کو بڑھایا جائے اور برآمدات کو بڑھایا جائے۔ ان اصولوں پر عملدرآمد کئے بغیر ہمارے لئے اپنے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اگرچہ حکومتوں کے لئے اپنے شاہانہ طرزو انداز اور بے جا اخراجات کے باعث یہ مشکل ترین اور کٹھن راستہ ہے مگر اب حالات کی سنگینی انہی اقدامات کی متقاضی ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اس وقت زرعی اجناس تک درآمد کررہے ہیں جن میں دالیں ، گندم ، خوردنی تیل ، چائے، خشک دودھ سمیت متعدد اشیائے خورونوش شامل ہیں جن پر ہمیں سالانہ سات سے آٹھ ارب ڈالرز خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
زرعی شعبہ پر توجہ دیتے ہوئے ہمیں ان اشیاء کو مقامی طور پر پیدا کرنے کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ اس کے علاوہ ہمارے درآمدی بل کا بڑا حصہ تیل اور گیس پر خرچ ہوتا ہے اس کے استعمال میں کمی لانے کے لئے ملک میں بجلی پیدا کرنے کے سستے منصوبے لگانا ہماری ترجیح ہونی چاہئے۔
ہائیڈل منصوبے اس کے لئے انتہائی ناگزیر ہیں جس سے ایک طرف تیل اور گیس پر اخراجات کم ہوں گے تو دوسری طرف سستی بجلی کی بدولت عوام کو صنعتی ،زرعی ،کاروباری اور گھریلو مقاصد کے لئے سستی بجلی مل سکے گی جس سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔
حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے شاہانہ اندازِ حکومت کو سرے سے ترک کرکے سادگی کی پالیسی انتہائی ضروری ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں حکومت سالانہ دوہزار ارب روپے بچانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
صوبائی خودمختاری کے تحت اختیارات کی منتقلی کے باوجود اس وقت وفاق میں موجود 40 میں سے 20ڈویژن غیر ضروری ہیں جو صوبائی محکموں کی موجودگی کے باوجود بلاوجہ کام کررہے ہیں ان ڈویژنوں کو ختم کرکے سالانہ بڑی بچت کی جاسکتی ہے۔ وفاقی کابینہ کے حجم میں کمی بھی اسی سادگی پالیسی کا ایک اہم جزو ہونا چاہئے۔
حکومت کے ماتحت چلنے والے کاروباری ادارے اس وقت سالانہ 850ارب روپے خسارے کا شکار ہیں جنہیں یہ رقم حکومت ادا کرتی ہے ان اداروں کی نجکاری ہونی چاہئے۔ جب تک ہم ملکی معیشت کے حجم کو بڑھانے کے لئے اقدامات نہیں کریں گے تب تک ہماری مشکلات اسی طرح بڑھتی رہیں گی۔
ملک میں کاروباری ماحول کو سازگار بنانے کے لئے اگر حکومت نوجوانوں کو چھوٹے اور درمیانے قرضوں کی فراہمی کی پالیسی پر زیادہ سے زیادہ عمل کرے تو اس سے لاکھوں نوجوان ہر سال کاروبار سے منسلک ہوں گے جس سےنہ صرف ٹیکسوں کی مد میں حکومتی آمدنی بڑھے گی بلکہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی بھی ممکن ہوگی۔ حکومت کو فوری طور پر کاٹیج انڈسٹری کو رواج دینا ہوگا، گھریلو صنعتوں میں خواتین اور نوجوانوں کو کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے پاس 62 فیصد یوتھ کی شکل میں ایک بہترین افرادی قوت موجود ہے انہیں ہنرمند بنانے کی طرف ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہئے تاکہ یہ ہنرمند ملک کے اندر یا باہر روزگارحاصل کرسکیں۔ان تمام اقدامات کو شروع کرنے میں تاخیر مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے جبکہ فوری طور پر خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ملک وقوم کی بہتری کے جانب مثبت قدم ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)