• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کون جانے عمران خان کس نظریے پر سیاست یا بغاوت کر رہے ہیں؟ اس وقت جب عمران خان کے’’عزائم‘‘ ایک ایک کرکے سامنے آرہے ہیں،ان لوگوں کی نظریں جھک گئی ہوں گی جو عمران خان کو نظریاتی لیڈر قرار دے کر اس کے معتقد کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔

عمران خان کو عدالت میں لے جانے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ ان کے 9مئی کے واقعہ میں ملوث ہونے کے حوالے سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔عمران خان کی جانب سے بیرون ملک مقیم نام نہاد پاکستانیوں کے ذریعے پاکستان اور اس کی فوجی قیادت کے خلاف زہر اگلنے کا سلسلہ جاری ہے۔تحریک انصاف نےلندن میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حملہ اور عمارت کو نقصان پہنچا کر ملک دشمنی کی نئی تاریخ رقم کی ہے، اگرچہ یہ واقعہ پاکستان کے لئے دنیا بھر میں بدنامی کا باعث لیکن یہ ملک دشمن پاکستان، آرمی چیف اور ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی پر ایسے فخر کررہے ہیں جیسے کوئی بھارتی پاکستان کو گالی دے کر سکون محسوس کرتا ہے۔اس کے باوجود عمران خان عدالتی کارروائیوں کو ظلم اور جبر قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ سیاسی اور نظریاتی شخصیات کی پرامن جدوجہد سے بھری پڑی ہے اور وقت کی آمرانہ اور سول حکمرانوں کی جانب سے تسخیر کرنے یا انہیں ان کے نظریات سے ہٹانے کے لئے ڈھائے جانے انتہائی مظالم کے باوجود انہوں نے اپنی دھرتی کو نقصان پہنچانے یا ملک سے غداری کرنے کا گمان بھی نہیں کیا۔یہ شخصیات اپنے عہد کے نیلسن منڈیلا سے بڑے قد کی تھیں، انہوں نے جیلوں کی سعوبتیں برداشت کرنا قبول کر لیا لیکن پر امن جدوجہد کا راستہ نہیں چھوڑا۔

باچا خان جنہیں سرحدی گاندھی کی عرفیت میں بھی یاد کیا جاتا تھا، ساری زندگی اپنے نظریے پر کھڑے رہے اور پرامن جدوجہد کرتے رہے، مسلسل 37سال جیل میں رہے لیکن قانون کے دائرے سے نکلے بغیر وطن پرست ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔ولی خان بھی اپنے والدکے بتائے ہوئے نظریاتی راستے پر چل کر قانون ہاتھ میں لئے بغیر آگے بڑھتے رہے، دشواریاں برداشت کیں لیکن اقتدار کے ہوس میں وطن کے ساتھ غداری نہیں کی اور نظریاتی جدوجہد کے دوران15سال قید کاٹی اس دوران ان کی اہلیہ اور بچے کا انتقال ہو گیا لیکن سرکار نے انہیں جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ بلوچستان کے تاریخ ساز نظریاتی راہ نما عبدالصمد اچکزئی اپنے نظریہ کو زندہ رکھنے کے لئے پر امن جدوجہد کرتے رہے اور ایوب خان کے جبر و آمریت کے خلاف جنگ لڑتے رہے اور ایوب خان کے پورے دور اقتدار میں جیل میں بند رہے لیکن آمرانہ نظام کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا جس کی پاداش میں 31برس جیل میں رہے اور ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی وہ آخری سیاسی قیدی تھے جنہیں جیل سے رہا کیا گیا۔تاریخ گواہ ہے کہ عبدالصمد اچکزئی نے اپنی تمام زندگی کے صرف 4سال جیل سے باہر آزاد فضاؤں میں گزارے۔سندھ کے دانشور نظریاتی راہنما جی ایم سید جنھوں نے سوشلزم اور ماکسزم پر کئی کتابیں تحریر کیں اور پرامن جدوجہد کی، اپنی زندگی کے 30سال جیل میں گزارے۔بلوچ سیاست کا ایک ناقابل فراموش کردار نواب نوروز خان زرکزئی بھی ایوب خان کی آمرانہ رویوں کا شکار ہوئے اور کوئیٹہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں پناہ لی اور وہیں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ایوب خان نے انہیں انہیں مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی دعوت دی لیکن جیسے ہی وہ پہاڑوں سے نیچے اترے، انہیں ان کے بیٹوں اور ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا لیکن مذاکرات کی بجائے نواب نوروز خان کے 7بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا، انہیں جیل میں ڈال دیا اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔

ایوب خان کے بعد کےعہدمیں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد نے انہیں تاریخ میں امر کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے ذریعے قتل کر کے راستے سے ہٹایا جس نے فوجی آمر ضیاءالحق کے سامنے جھکنے پر پھانسی پر جھول جانے کو ترجیح دی اور امر ہوگیا اور اس کی بیٹی کو بھی ایک آمر نےخودکش دھماکے میں مروا کر راستے سے ہٹا دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نیلسن منڈیلا کے رتبے تک پہنچنے کے دعویدار عمران خان کی سیاسی جدوجہد صرف تین راتیں حوالات میں رہنے پر محیط ہے اس نے تو جیل کی عمارت تک نہیں دیکھی۔ وہ تین راتیں بھی عدلت عظمیٰ کے احسانات کی بدولت پولیس کے ریسٹ ہاؤس میں گزاریں جہاں ’’پسندیدہ شخصیات‘‘ کو ساتھ رہنے کی اجازت کے علاوہ طرح طرح کے پکوان کے ساتھ’’مطلوبہ اشیائے خور و نوش‘‘ بھی میسر تھے۔ چوری کھانے والے مجنوں بھٹو اور منڈیلا کیونکر بن سکتے ہیں؟ اور ملک و قوم کو بےآبرو اور فوج اور دفاعی تنصیبات کو تاراج کرنے والے محب وطن یا پاکستانی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟؟

اپنے نظریات یا افکار کی تبلیغ کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر دینے والی ملکی تاریخ کی چند نظریاتی شخصیات کی جدوجہد کے حوالے سےتفصیلات اس لئے بیان کرنا ضروری تھا کہ کھیل کے میدان میں شہرت پانے والے ایک ’’کھلاڑی‘‘ نے یہ سمجھ لیا کہ سیاست کا میدان بھی اس بے شعور اور آزاد خیال ماحول میں فریب، جھوٹ، دھوکہ دہی اور ملک دشمنی کی بنیاد پر مارا جاسکتا ہے، غلط تھا۔

2014میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر سوار ہوکر عملی سیاست کے میدان میں اترنے والے اس’’کھلاڑی‘‘ نے کسی بھی قیمت پر اقتدار پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ اس وقت اسٹیبلشمٹ کسی نئے مہرے کی تلاش میں تھی جو اس کے اشارے پر ان کی مرضی سے چالیں چل سکے لیکن اسٹیبلشمنٹ کا اندازہ غلط ثابت ہوا کیونکہ اس "کھلاڑی" کا اصل مقصد ان کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کی کرسی تک پہنچنا تھا وہ اس نے حاصل کر لیا اور اب اسے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے جس کی تکمیل کے لئے وہ کرسی تک پہنچا تھا، یہ ایجنڈا پاکستان کی مکمل تباہی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔

تازہ ترین