• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن، بچپن سے لڑکپن۔اور لڑکپن سے نوجوانی۔ نوجوانی سے جوانی، جوانی سے ادھیڑ عمر، اور ادھیڑ عمر سے بڑھاپا تک ایک لفظ کے معنی، مفہوم، تشریح، توضیع سنتے سنتے اپنے سفر آخرت کی دہلیز پرکھڑا ہوں لیکن سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر آزادی اظہار یا اظہار کی آزادی کس رویہ، کس طرز عمل کانام ہے۔ سوچ سمجھ کی دلدل میں پھنسا ہوا میں واحد شخص نہیں ہوں۔ مجھ سے پہلے آنیوالی نسلوں کے لوگ اسی گھٹنا سے گزرتے رہے ہیں۔ اور آنے والی نہ جانے کتنی نسلوں کو آزادی اظہار کے معنی اور مفہوم سمجھنے میں اپنی زندگیاں بھینٹ چڑھانی ہوں گی۔ مگر اس کے باوجود وہ سمجھ نہیں پائیں گے کہ آزادی اظہار یا اظہار کی آزادی کس رویہ کا نام ہے ۔آج، ایک مرتبہ اور ہم اس گتھی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بات واضح کردوں کہ اس نوعیت کی کوششیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔ ہمیں ہرحال میں سمجھنا ہوگا کہ آزادی اظہار کیا ہے؟ اس کی سرحد یں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں پرختم ہوتی ہیں۔ یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے، لازمی ہے۔ مختصراً یہ کہ دنیا میں انسان سے وابستہ کچھ بھی لامحدود نہیں ہے۔ حدیں طے ہیں۔ انسان بے بس ہے۔ اسکے بس کی حدیں مقرر ہیں۔ سب کچھ اسکے بس میں نہیں ہے۔ وہ سب کچھ نہیں کرسکتا۔ اپنی ہر خواہش ہرتمنا پائے تکمیل تک پہنچا نہیں سکتا۔ وہ بے بس ہے۔ اسکی کوششوں کی حدیں مقر رہیں۔ ہر شخص اوسان بولٹ کی طرح ایک سومیٹر آٹھ سیکنڈ میں دوڑ نہیں سکتا۔ اوسان بولٹ خود بھی ایک سومیٹر سات سکینڈ میں دوڑ نہیں سکتا۔ اس نے جو کچھ کیا وہ اس کے بس میں تھا۔ اس سے کم سیکنڈوں میں وہ ایک سومیٹر دوڑ نہیں سکتا۔ کچھ بھی انسان کے لئےلامحدود نہیں ہے۔اسلئے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اظہار کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں پرختم ہوتی ہیں۔

مثلاً میں آپ کو اچھا نہیں لگتا۔اس کا تعلق آپکی پسند ناپسند سے ہے۔ہماری پسند ناپسند کی طویل فہرست ہوتی ہے۔ آپ کچھ رنگ پسند کرتے ہیں۔ کچھ رنگ آپ پسند نہیں کرتے۔ سننے سنانے کے لئے آپ کو کچھ موضوع اچھے لگتے ہیں۔ کچھ موضوع آپ پسند نہیں کرتے۔ کچھ گانے آپ کو بور لگتے ہیں۔ اس نوعیت کے گانے سننا آپ پسند نہیں کرتے۔ کچھ سیاستدان آپ دل وجان سے پسند کرتے ہیں۔ کچھ آپ کو زہر لگتے ہیں۔ آپ ان کو برداشت نہیں کرتے۔آپ نے اپنی پسند نا پسند کو اپنی ذات تک محدود رکھا ہے۔ مگر جب آپ اپنی ناپسند کو توسیع دینا چاہتے ہیں یعنی اپنی ناپسند کو ظاہر کرناچاہتے ہیں، دنیا پر عیاں کرنا چاہتے ہیں، تب وہیں سے آپ کی آزادی اظہار کی بات شروع ہوتی ہے۔ مجھ سے نفرت کی بات جب تک اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں تب تک آزادی اظہار کی بحث نہیں چھڑتی۔میں آپ کی نفرت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ مگر جب آپ مجھ سے نفرت کو دنیا پر عیاں کرناچاہتے ہیں، تب وہیں سے آپ کے اظہار کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی آپ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔مجھے بلند بانگ گالیاں دیتے ہیں۔ مجھے کوستے ہیں۔ مجھے ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں، تب وہیں پر آپ کی آزادی اظہار کی سرحدیں ختم ہوجاتی ہیں۔ کئی ممالک میں چونکہ اب تک اظہار کی آزادی کی سرحدوں کا تعین نہیں ہوسکا ہے، اسلئے وہاں آپ اپنے اظہار کی آزادی کے نام پرمیری دل آزاری کرتے رہتے ہیں۔آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کے اظہار کی آزادی کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔

پچھلے دنوں سویڈن میں ایک شخص نے آزادی ِاظہار کے نام پر کلام پاک کی بے حرمتی کی تھی۔ اس نے مسجد کے سامنے قرآن پاک کو آگ لگا دی تھی اس نے یہ گھنا ئونا کام کھلم کھلا کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو ذہنی اذیت پہنچاناچاہتا تھا۔ اور اس نے یہ کام کرکے دکھا دیا۔ سویڈن کی سرکار نے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑوالی کہ یہ ایک فرد واحد کا ذاتی فعل تھا۔ حکومت کا اس سے کسی قسم کا لینا دینا نہیں تھا۔ بنیادی حقوق کی علم برداری کرنے والے سویڈن کی حکومت کو بتائیں کہ ایسا کوئی عمل جس سے کسی کی دل آزاری ہورہی ہو، اس کا سدباب حکومت کے فرائض میں شامل ہوتا ہے ۔آپ آزادی اظہار کے نام پر کسی کو اتنی ڈ ھیل نہیں دے سکتے کہ نتائج آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں۔

میں نہیں جانتا وہ شخص اپنی گھنائونی حرکت سے کیا نتائج نکلتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند تھا؟ عین ممکن ہے کہ کل اسی نوعیت کے ذہنی خلفشار میں مبتلا شخص مقدس بائبل کو چرچ کے سامنے آگ لگادے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ذہنی طور پر مفلوج شخص کسی مندر کے سامنے مقدس گیتا کوآگ لگادے۔ کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ کو جلادے۔ ایسے مجذوب چاہتے ہیں کہ دنیا میں ایسی آگ بھڑک اٹھے جودنیا کے گولے کو جلاکر راکھ کردے۔ ایسی بھیانک آگ صرف تب بھڑک سکتی ہے جب حکومتیں آزادی اظہار کی اتنی چھوٹ دے دیں کہ خناس مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف خونخوار جنگ کیلئے اکسا سکے۔

تازہ ترین