• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال میں آئی ایم ایف کی جانب سے مختلف قسم کی سخت ترین شرائط ہمارے حکمرانوں، سیاسی رہنمائوںاور دیگر اہم اداروں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں، آئی ایم ایف یا دیگر مالیاتی اداروں سے دنیا بھر کے ممالک قرضہ لیتے ہیں مگر اس بار پاکستان کو قرضہ جاری کرتے ہوئےآئی ایم ایف نےجو انداز اختیار کیا وہ پوری قوم کی ہتک کے مترادف ہے، ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ انکے نمائندوں کی ملاقاتیں براہ راست پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس صورت حال کے ذمہ دار سابق وزیر اعظم عمران خان ہیں جنہوں نے پہلے اپنے دور ِحکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری نہ کی،بلکہ اپنے اقتدار کو ڈوبتا دیکھ کر انہوں نےان معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی،جس سےیہ مالیاتی ادارہ پاکستان کو نئے قرض جاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، آئی ایم ایف کے نمائندوں سے ملاقات میں عمران خان نے جس طرح ان پر انتخابات کے حوالے سے دبائو ڈالا وہ ملک دشمنی کے مترادف ہے، حکومت کو آئی ایم ایف کے اس عمل پر احتجاج کرنا چاہئے۔ آئی ایم ایف کی موجودہ حکمت عملی کے بعد پاکستان کی حکومت کو قرضوں کے حوالے سے اپنی نئی پالیسی بنانا ہوگی۔آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود 25ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت ایک سوالیہ نشان ہے۔ زرمبادلہ کے کم ذخائر اتنی بڑی ادائیگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ادارہ شماریات کے مطابق 43فیصد کمی کے باوجود تجارتی خسارہ تقریباً ساڑھے 27ارب ڈالر ہے جو ادائیگیوں کے توازن میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، افراط زر بجٹ کے اہداف سے زیادہ ہے جس سے مہنگائی میں توقع کے مطابق کمی نہ آ سکے گی۔ پھر پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کرنی ہیں جس کیلئے عوام پر مزید ٹیکس لگانا ہوں گے، سود کی شرح بڑھانا اور سرکاری اخراجات میں کمی لانا ہو گی۔ ایسا کرنا کسی بھی حکومت کیلئے عوامی مقبولیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے،اس لئے اہلِ اقتدار کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا، موجودہ حکومت ڈیفالٹ سے بری الذمہ ہوسکتی ہے لیکن آنے والے وقت میں پاکستان پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹکتی رہے گی۔یہ الیکشن کا سال ہے، پی ڈی ایم حکومت نے عمران خان کی معاشی نااہلی کی جو قیمت ادا کی ہے اس میں اس کی سیاسی ساکھ بھی دائو پر لگ چکی ہے، عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے دلدل میں پھنسے ہوئےہیں، ان حالات میں موجودہ بجٹ میں حکومت نے کچھ ریلیف دینے کی کوشش کی ہے، مگر خود ساختہ مہنگائی نے اس کی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے جس پر وزیر اعظم کو توجہ دینا ہوگی، چاروں وزرائے اعلیٰ کو اس سلسلے میں متحرک ہونا پڑے گا،پاکستانی معیشت کا علاج کرنے کیلئےضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں، حکومتی اخراجات کم کئے جائیں، وزرا اور بیوروکریسی کو گاڑیاں اور پلاٹس نہ دئیے جائیں، سبسڈیز کم کی جائیں۔ اب جبکہ رواں سال انتخاب کا ہے،جس کیلئے نگراں حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا،آئین کی شق 224 کے تحت اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ختم ہونے والی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیرِ اعظم کو باہمی مشاورت سے کسی ایک نام پر متفق ہونا ہوتا ہے، اب جبکہ عمران خان قومی اسمبلی میں نہیں تو راجہ ریاض سے بطور اپوزیشن لیڈر مشاورت کی جائیگی، اس لئے عمران خان کا الیکشن کامطالبہ بے معنی نظر آتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ نگراں حکومت میں معاشی معاملات پر مہارت رکھنے والے لوگوں کو شامل کیا جائے تاکہ وہ تین ماہ کے دوران ملک کو مزید معاشی تباہی سے بچا سکیں، ملک میں اس وقت سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے، عمران خان اور ان کی جماعت مسلسل ملک اور اس کے اہم اداروں کے خلاف مہم چلا رہی ہے جس کا مقصد شاید بھارت کو خوش کرنا ہے، نو مئی کے واقعہ پر سب سے زیادہ جشن اور خوشی بھارت میں منائی گئی، وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ انکشاف خاصا ہولناک ہے کہ عمران خان آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف مذموم اور بدنیتی پر مبنی مہم میں مصروف ہیں، ان کا دوسروں کے ذریعے آرمی چیف کودھمکیاں دینےکا منصوبہ بری طرح بے نقاب ہو چکا ہے، یہ مہم اداروں کو تقسیم کرنے کی سازش کا حصہ ہے، مگر پاکستان کےعوام اور افواج کبھی ریاست کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے یہ بات ہر سیاستداں کو ذہن نشین کر لینی چاہئے۔

تازہ ترین