(گزشتہ سے پیوستہ)
اس موضوع پر میرا پہلا کالم گزشتہ ماہ شائع ہوا تھا ایسے کالم سندھ کے کچھ محققین اور سیاسی رہنمائوں کے مختلف اخباروں خاص طورپر سندھی اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں،ان کالموں میں بھی ڈیجیٹل مردم شماری پر شدید اعتراضات کئے گئے یہاں تک کہا گیا کہ اگر حکومت وقت موجودہ ڈیجیٹل مردم شماری پر سندھ کی قوم پرست پارٹیوں حتیٰ کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کا نوٹس لیکر فوری مناسب اقدام نہیں کرتی تو شاید سندھ کی یہ ساری سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی اس مردم شماری کے نتائج قبول کرنے سے انکار کردیں گی اور ممکن ہے کہ سندھ کی ساری سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر اس مردم شماری اور حکومت کیخلاف تحریک چلائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پہلی بار نہیں ہوگا کہ کسی ایک صوبے نے ملک بھر میں ہونے والی مردم شماری کو اس وجہ سے قبول نہیں کیا کہ ان کو کسی دوسرے صوبے میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار پر اعتراض تھے۔ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ 90ء کی دہائی میں جو مردم شماری ہوئی اس وقت پنجاب نے سندھ میں ہونے والی مردم شماری پر اعتراضات کئے، اسلئےملک کی مردم شماری متنازعہ بن گئی، اس وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف تھے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق تھے، جام صادق نے اس پر پوری توجہ دی اور وہ مردم شماری کرنیوالے اداروں کو ہدایات دیتے رہے کہ سندھ میں بشمول گھر شماری کے مردم شماری انتہائی ایمانداری سے کی جائے، جام صادق نے یہ ہدایات اس وجہ سے دیں کہ سندھ کے اکثر سیاسی محققین اور سیاسی رہنمائوں کو اس سے پہلےہونیوالی مردم شماری پر یہ اعتراضات تھے کہ ان میں سندھ کیساتھ انصاف نہیں کیا گیا، جب ملک کے دیگر صوبوں کیساتھ سندھ کی مردم شماری کے اعداد و شمار ظاہر ہوئے تو پنجاب نے سندھ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ،وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے پوری کوشش کی کہ پنجاب سندھ کی مردم شماری کے اعداد و شمار تسلیم کرلے تاکہ اس مردم شماری کو تسلیم کیا جائے اس مقصد کیلئے وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے لاہور میں گورنرز کانفرنس بلائی جس میں بشمول پنجاب سارے صوبوں کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس مردم شماری کو قبول کیا جائے تاکہ ملک کا کاروبار آئین کے تحت نئی مردم شماری کو بنیاد بناکر شروع کیا جائے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا لہٰذا 90 ء کی دہائی میں سندھ میں ہونے والی مردم شماری کا ریکارڈ ابھی تک ریکارڈ میں پڑا ہوا ملے گا۔ کہنےکا مقصد یہ ہے کہ یہ بات سامنے لائی جاسکے کہ اگر کوئی ایک صوبہ آدم شماری کو قبول نہیں کرتا تو پھر یہ مردم شماری قابل عمل نہیں ہوسکتی۔ میں یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ سندھ کے اکثر محققین اور سیاسی رہنمائوں کو اس پر شدید اعتراضات ہیں کہ 10سے 15سال پہلے اندرون سندھ کے کچھ علاقوں میں شدید سیلاب آیا تھا،ان علاقوں کے ہزاروں لوگ خواتین اور بچوں کے ساتھ کچھ حیدرآباد جبکہ بڑی اکثریت کراچی منتقل ہوگئی تھی، آج بھی سپر ہائی وے سے کراچی آتے وقت دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں اطراف یہ لوگ خیموں میں انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت نے نہ ان کو گھر فراہم کئے نہ ان کو مردم شماری میں شامل کیا گیا، انکے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی حکومت ان کو پاکستان کا شہری تسلیم نہیں کرتی تھی نہ کرتی ہے،ان غریب سندھیوں کیساتھ یہ سلوک دیکھ کر سندھ کے اکثر دانشور یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ان سندھیوں کو بھی ریڈ انڈین بنانے کا ارادہ ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کے ریڈ انڈینز کے بارے میں بعض غیر تصدیق شدہآرایہ ہیں کہ یہ ریڈ انڈین سندھ کے غریب لوگ تھے جن کو ایک مرحلے پر سندھ چھوڑ کر دور بھاگ جانا پڑا ، سندھ کے ایک چیف سیکریٹری جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے امریکہ میں ایک پوسٹ پر مقرر کئے گئے جب وہ وہاں سے واپس آئے تو ایک ملاقات میں بتایا کہ انہوں نے امریکہ میں ریڈ انڈینز کے بارے میں کافی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ سندھ کے تھے اور سندھی تھے۔ سندھ کے محققین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ موجودہ مردم شماری میں ان لوگوں کو بھی گنا گیا ہے جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ اس سلسلے میں یہ محققین خاص طور پر پاکستان کے ایک فوجی سربراہ پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے پاکستان کے چیف جسٹس کی طرف سے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے آخر میں جاری کئے گئے فیصلے کا ذکر کرتے ہیں، اس عدالتی فیصلے میں سپریم کورٹ نے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ کراچی شہر میں لاکھوں غیر ملکی آباد ہیں اور حکم جاری کیا کہ ایک تو فوری طور پر ان سب غیر قانونی غیر ملکیوں کو کیمپوں میں منتقل کیا جائے اور پھر ان سب کو اپنے اپنے ملکوں کو روانہ کیا جائے مگر آج تک اس عدالتی حکم نامے کا نہ وفاقی حکومت نے نوٹس لیا اور نہ اس پر عمل کیا۔ اسی طرح سندھ کی صوبائی حکومت نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف کراچی شہر بقیہ سندھ میں بھی ان غیر قانونی غیر ملکیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے، اطلاعات کے مطابق اس مردم شماری میں سارے سندھ میں بسنے والے ان غیر قانونی غیر ملکیوں کو بھی سندھ کے باشندے ڈکلیئر کیا گیا ہے، ان غیر قانونی غیر ملکیوں میں بڑی تعداد افغانیوں کی ہے، اسکے علاوہ ان میں برمی، ایرانی اور کچھ دیگر ملکوں کے باشندے بھی شامل ہیں۔ (جاری ہے)