• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا“ کا سالانہ کنونشن ڈیلس ٹیکساس کے مہنگے ترین ہوٹل گیلارڈ ٹیکسن ریزورٹ میں منعقد ہوا۔ کنونشن کے آغاز سے قبل ہی تمام کمرے اور میوزیکل ڈنر نائٹ کے ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے۔ اپنا تنظیم کے صدر ڈاکٹر ارشد ریحان اور انکی ٹیم نے احسن طریقے سے تمام انتظامات کی نگرانی کی اور کنونشن کو کامیاب ایونٹ بنا دیا، کھانے کے معیار، مقدار اور قیمتوں سے البتہ لوگوں کو شکایات رہیں۔ کنونشن ہال میں ملبوسات، جیولری اور دوسری اشیاء کے پانچ سو سے زائداسٹال لگائے گئے جہاں تین ہزار سے زائد ڈاکٹرز اور ان کی فیملیز نے بھرپور خریداری کی تاہم پاکستان سے آئے بلڈرز، رئیل اسٹیٹ ایجنٹس اور نان پرافٹ اداروں کے نمائندوں کے طرز عمل کو پسندیدگی سے نہ دیکھا گیا۔ پاکستانی سفیر کے علاوہ چند متمول پاکستانی امریکیوں نے بھی کنونشن میں شرکت کی اور بچوں کےا سکالر شپس اور دوسرے رفاہی کاموں کیلئے عطیات دینے کا اعلان کیا۔ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے حامی چند سو افراد نے اپنی جماعت کے سربراہ کی تقریر بذریعہ ویڈیو کنونشن کے شرکاء کو دکھانے کی کوشش کی مگر منتظمین نے ان کی فرمائش رد کردی جس کے بعد ایک قریبی ہوٹل میں چند سو افراد کیلئے یہ اہتمام کیا گیا۔ پاکستان میں رہائش پذیر پاکستانیوں کی طرح بیرون ملک بسنے والے تارکین وطن بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کیساتھ وابستگی رکھتے ہیں جسکا انہیں پورا حق ہے مگر اپنا کے نیشنل کنونشن میں سیاست کرنا اور جارحانہ طرز عمل رکھنا کسی طور مناسب نہیں۔ اس سے قبل اپنا تنظیم میں علاقائی بنیادوں پر تفریق ڈالنے کی کوشش کی گئی جو بڑی حد تک ناکام ہوگئی۔ اپنا کے ممبران نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان میں بھی مختلف رفاہی کاموں میں برسوں سے مصروف عمل ہیں، اسکے علاوہ امریکی حکومت اور کانگریس میں اپنے وطن کیلئے لابنگ بھی بڑے موثر انداز سے کر رہے ہیں۔ پاکستان میں حکومت سے فارغ ہونے والی ایک سیاسی جماعت کےحامی چند اوورسیز پاکستانی ملک دشمنی میں اس حد تک چلے گئے کہ سوشل میڈیا پر من گھڑت کہانیاں سناکر سیاسی کارکنوں کو ورغلا نے اور حکومت اور اداروں کیخلاف نفرت اور لاقانونیت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی مگر عوام کی اکثریت نے ان لوگوں کے ملک دشمن عزائم کو بھانپ کر اس نفرت انگیز مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران چند ضمیر فروش لوگوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ اپنے وطن زرمبادلہ بھیجنا بند کردیں تاکہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے اور موجودہ حکومت سے جان چھوٹ جائے۔ پاکستان کی سالمیت اور معیشت کیخلاف بیرونی ایجنٹوں کی اس سازش کو بھی اوورسیز پاکستانیوں نے ناکام بنا دیا۔ اوورسیز پاکستانی چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، انجینئر ، آئی ٹی ایکسپرٹ یا عام ٹیکسی ڈرائیور سبھی اپنے وطن اور اپنے پیاروں سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ انہیں علم ہے، حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور بسا اوقات انہیں اپنے حکمرانوں سے گلے شکوے بھی ہوتے ہیں مگر وطن کی مٹی سے انکا تعلق کبھی ختم نہیں ہوتا۔ پاکستانی طالب علم بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے دوران دن کو پڑھتے اور رات کو ملازمت کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے والدین پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ عام ورکر یورپ اور مشرق وسطیٰ میں دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں مگر اپنے والدین کے علاج، بھائی بہنوں کی ذمہ داریوں اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات ہر حال میں پورے کرتے ہیں۔ امریکی ریاست ورجینیا میں اچھے عہدوں پر فائز میاں بیوی جنکے دو بچے ہیں پاکستان کے ایک گاؤں میں دو انتہائی غریب خاندانوں کو دودھ دینے والی گائے خرید کر دیتے ہیں انکا کہنا ہےکہ ان غریب خاندانوں کے بچے گائے کا دودھ پیتے ہیں تو ہمارے بچے جنہیں یہاں ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں صحت مند رہتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ اور سابق حکومتوں نے اوور سیز پاکستانیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے وعدے تو بہت کئےمگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ پنجاب میں بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کیلئے اوورسیز کمیشن بنا تو اسکی سربراہی کسی قریبی دوست کو سونپ دی گئی یا پھر بھاری رقم کے عوض وہ سیٹ بیچ دی گئی اور پھر اس ادارے کی افادیت ختم ہوگئی۔ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کو مخصوص مدت کے بعد وطن لوٹنے پر مراعات دی جانی چاہئیں۔ اوورسیر پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کو سہولتیں اور تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے، حکومتی رہائشی منصوبوں بشمول ڈی ایچ ایز میں اوور سیز کوٹہ ہونا چاہئے جہاں آسان اقساط کے ساتھ وہ پلاٹ، فلیٹ یا گھر خرید سکیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں سے اعلیٰ تعلیمی اور پروفیشنل اداروں میں لی جانے والی ہوشربا فیسوں میں کمی کی جانی چاہئے۔ آبادی کے تناسب سے مختلف ممالک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کی پاکستان کی اسمبلیوں اور سینٹ میں نمائندگی ہونی چاہئے۔ وطن عزیز کیلئے خدمات سرانجام دینے والے اوورسیز اور بیرون ملک فعال تنظیموں کے سربراہان کو وی آئی پی کا درجہ دیکر قومی دنوں اور تقریبات میں مدعو کیا جانا چاہئے انہیں اعزازات سے نوازنا چاہئے مگر یہ سب کام میرٹ پر ہونا چاہئے، اپنے لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین