• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی بینک نےدسمبر 2022 میں پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا پاکستان میں غربت کی شرح 2021۔22 میں 39.2 فیصد تھی۔ تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان کے 90لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ تعداد 58 لاکھ تھی۔ آگے چل کر اس رپورٹ میں پاکستان کے تجارتی خسارے کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو 2022 میں سالانہ بنیادوں پر اپنی بلند ترین سطح یعنی44.8 بلین ڈالرز تک جا پہنچی تھی اور اس میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا،کیوں کہ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے باعث پاکستان کا نو ملین ایکڑ سے زیادہ زرعی رقبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے جس کے باعث ملک میں جہاں ایک طرف زرعی اجناس کی شدید کمی کا سامنا ہے ،وہاں دوسری طرف کپاس، گندم، گنّے اور چاول وغیرہ کی قلت کے سبب ملک کی درآمدات کا گراف ہدف سے کہیں زیادہ بلند سطح پر پہنچ کر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو غیر مستحکم کر دے گا۔

خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 

گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب سے پاکستان میں نقصانات کا تخمینہ حکومت نے اپنی ایک رپورٹ میں 40بلین ڈالرز لگایا تھا۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے بھی اس کی نفی نہیں کی تھی۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق کووِڈ19 کے سنگین اثرات کے تناظر میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2030تک 20کروڑ 70لاکھ افراد خط ِغربت سےنیچے کی سطح تک چلے جائیں گے اور اگر ایسا ہواتو عالمی سطح پر ازحد غریب افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔

اگرچہ ہر ملک کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں جس کے باعث غربت کی کسی مخصوص وجہ کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن عالمی سطح پر ان سات بنیادی وجوہات کو غربت کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے:

آبادی میں اضافہ۔وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم۔ بدعنوانی۔ جنگ۔ ناگہانی آفات۔ جہالت۔ کووڈ کی وبا۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی 56.6 فی صد آبادی کووڈ کی وبا کے بعد اب تک سماجی اور معاشی خطرات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے غربت کی لکیر سے قدرے اوپر ہونے کے باوجود غربت کے بالکل قریب آ گئی ہے اور اپنی قلیل اور وبا کے باعث مزید کم ہوتی آمدن اور تیزی سے بڑھتی افراطِ زر کی شرح کے باعث اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہی ہے۔کووڈ کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔2021کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں غربت کی شرح 31.4 فیصد، سندھ میں 45 فی صد، خیبر پختون خوامیں49 فیصد اور بلوچستان میں 71فی صد نوٹ کی گئی تھی۔

زرعی پیداوار میں اضافے کا چیلنج

بھوک اور افلاس کو انسانیت کابہت بڑا دشمن گردانا جاتا ہےاور ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا کی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے سائنس دانوں کو زراعت کے ایسے طریقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے جنہیں استعمال کر کے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جائے بلکہ زرعی مقاصد کے لیے مخصوص زمین کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ 

اس آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہم سطح زمین کا چالیس فی صد حصہ باغات، کھیت کھلیان اور مویشیوں کی گلہ بانی کے لیے مخصوص کرچکے ہیں۔ اگر اجناس کے حصول کے لیے اسی طرح زمین استعمال کرتے رہے تو پھر مستقبل میں انسانوں کے لیے قابل رہایش جگہ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اقوام متحدہ کےادارہ برائے معاشی اور سماجی امور کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی 9ارب60 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے ہمیں خوراک کی پیداوار کو بڑھا کر 70فی صد تک لے جانا ہوگا۔ لیکن اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے زمین درکارہے اور ہم انسان پہاڑوں کی چوٹیوں، برفانی علاقوں اور صحراؤں کو چھوڑ کر زمین کا ممکنہ حد تک رقبہ استعمال کر چکے ہیں۔

اب ہمارے پاس صرف جنگلات ہی باقی بچے ہیں۔ لہٰذا ہمیں کاشت کاری کے طریقہ کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ بہ ظاہر تو یہ بات ناممکن لگتی ہے، لیکن ماضی میں یہ ناممکن کام ممکن ہوچکا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کچھ لوگ نارمین بورلاگ (نوبیل انعام یافتہ امریکی ماہر حیاتیات) کے نام سے واقف ہوں، لیکن اگر ہم زراعتی انقلاب کی بات کریں تو غالباً نارمین ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔

حیران کن نتائج

یہ 1940کے وسط کی بات ہے جنوب وسطی میکسیکو میں آبادی کے بڑھنے سے اناج کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ نارمین نے زیادہ پیداوار اور بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیج کسانوں میں تقسیم کیے۔ کسان اُس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے بورلاگ کے بیج کو نائٹروجن کھاد کے ساتھ استعمال کیا اور فصل پہلے سے کہیں زیادہ آئی۔ نارمین کے اس طریقۂ کار کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور 1963تک میکسیکو میں پیدا ہونے والی گندم کی فصل میں 95فی صد بیج نار مین کے استعمال ہونے لگے۔1944 سے 1963 کے عرصے میں میکسیکو میں گندم کی پیداوار چھے گُنا بڑھ چکی تھی۔

1960کے وسط میں نارمین نے جنوب ایشیائی خطے کا رُخ کیا، جو بڑھتی ہوئی آبادی اور پیداوار میں عدم توازن کے سبب غذائی قلت کا سامنا کر رہا تھا۔ نارمین نے اپنے ری انجنیئر کیے گئے بیج یہاں (جنوبی ایشیا) میں متعارف کرائے۔ ان بیجوں سے پیدا ہونے والی فصل کے نتائج بہت ہی حیرت انگیز تھے۔ محض پانچ سال بعد ہی بھارت اور پاکستان میں گندم کی پیداواردگنی ہوچکی تھی۔ 1974تک یہ دونوں ممالک اناج کی پیداوار میں خود کفیل ہوچکے تھے۔

بورلاگ کا طریقۂ کار جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی تیزی سے پھیل گیا۔ نارمین نے مونوکراپنگ (ایک ہی زمین پر سال ہا سال ایک ہی فصل اُگانا) اور نائٹروجن کھاد کے زیادہ استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔ ان دونوں سے مختصر مدت کے لیے زیادہ فصل تو حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن طویل عرصے ان کا استعمال زمین کی زرخیزی کو کم کر دیتا ہے۔ قحط سے تحفظ کے لیے بورلاگ کی توجہ چاول اور مکئی پر رہی۔

اسی وجہ سے نارمین نے اُن اجناس کو نظر انداز کردیا جن کے بارے میں اب ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ پُرغذایت (زیادہ کیلوریز والی) ہیں اور ان اجناس (آلو اور شکر قندی) سے کم رقبے پر زیادہ کیلوریز حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب فارمنگ کے طریقۂ کار میں تبدیلی ناگزیر ہے، اب ہم ٹیکنالوجی کی مدد سے اسی قطعۂ زمین پر 70فی صد زیادہ کیلوریز پیدا کر سکتے ہیں۔

لینڈ انفارمیشن اینڈ مینیجمنٹ سسٹم 

دوسری جانب ہم پاکستانی ہیں جو کاشت کاری کے دہائیوں پرانے طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ لیکن وقت کا جبر اب ہمیں بہت کچھ تبدیل کرنے پر مجبور کرچکا ہے کہ اب پاکستان مزید قرض لینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہذا ماہرین کے مطابق اب ہمیں فوڈسکیورٹی، زرعی برآمدات بڑھانے اور درآمدات کم کرنے کے لیے ملک بھر میں زیر کاشت نہ ہونے والی لاکھوں ایکڑ اراضی اور کم پیداواردینے والی زمین پر خاص توجہ دینا ہوگی۔ چناں چہ حال ہی میں ‏پاکستان نے جدید زراعت کے فروغ کے لیے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینیجمنٹ سسٹم (لمز)، سینٹر آف ایکسی لینس قائم کیا ہے۔

حکام کے مطابق اس انقلابی تحریک سے زمین، فصلوں، موسم، پانی کے ذخائر اور کیڑے مکوڑوں کی روک تھام پر ایک ہی چھت کے نیچے کام کیا جائے گا اور ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل قائم کی گئی ہے۔ اس پروگرام سے ملازمتیں پیدا ہونے کے علاوہ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی۔ 

جدید معلومات اور تجزیوںکی بنیادپر زرعی مشکلات، رکاوٹوں اور چیلنجز کی نشان دہی، مناسب حل تلاش کرنے اور شعوری فیصلے کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس کے علاوہ پروگرام کے مقاصد میں ضایع شدہ اورنہ کاشت کی جانے والی زمین کی بحالی اور اس میں استحکام لانابھی شامل ہے۔ مختلف شعبوں کے ماہرین، وسائل و ذخائر، جدید ٹیکنالوجی اور آب پاشی کےنظام کے مناسب استعمال سے پاکستان کی زراعت میں ایسی ترقی لائی جائے گی جس سے ملک کے ہر خطے میں نہ صرف خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا بلکہ خوراک کی حفاظت اور ضرورت کے مطابق اسے ذخیرہ بھی کیا جائے گا۔

دوسرے سبز انقلاب کی تیاری

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے سبز انقلاب کے منصوبے کا آغاز1960کی دہائی میں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں نئی ٹیکنالوجی، نہری نظام، بیج اور کیمیکل فرٹیلائزرز کو متعارف کرا کے اناج کی پیداوار میں تین گنا اضافہ کیا گیاتھا۔ اس منصوبے کے بعد گندم کی پیداوار میں79 فی صداضافہ ہواتھا۔ پہلے پیداوار کی مقدار3.7ملین میٹرک ٹن تھی جو سبز انقلاب کے بعد6.8ملین میٹرک ٹن ہوگئی تھی۔ 1960کی دہائی سے پہلے اور سبز انقلاب کے بعد کی پیداوار سے اگر موازنہ کریں تو آج ہماری زرعی پیداوار اوسط درجے سے بھی کم ہے۔

آج پاکستان میں گندم کی مانگ 30.8 ملین ٹن سے تجاوز کرگئی ہے، لیکن حالیہ پیداوار26.4ملین ٹن سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ کپاس کی پیداوار بھی دس برسوں میں چالیس فی صد تک کم ہوچکی ہے۔دوسری جانب زرعی درآمدات کے بِل کا 10ارب تک پہنچ جانا ملکی معیشت کے لیے بہت سے مسائل کا باعث ہے۔ ان تمام مسائل اور دشواریوں کے باعث ایسا قدم اٹھانے کی شدید ضرورت ہے جس کی وجہ سے زراعت کے جدید طریقوں کے ذریعے ملکی زمین کو دوبارہ زرخیز بنایا جائے۔

جدید زراعت کا منصوبہ

اس منصوبے کی نگرانی ڈائریکٹر جنرل ا سٹریٹیجک پراجیکٹس میجر جنرل شاہد نذیر کریں گے۔ اس ضمن میں پنجاب میں جدید کاشت کاری کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ مختلف زرعی منصوبوں کے لیے سعودی عرب 500 ملین ڈالرز فنڈ کے ساتھ اور چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین بھی تعاون کر رہے ہیں جس سے یقیناً ہماری برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ فن لینڈ بیچ، جنگلات اور حیاتیاتی نوعیت کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔

یادرہے کہ پاکستان میں 24ملین ہیکٹرز اراضی پر فصلیں لگائی جاتی ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی معیشت میں زراعت 23 فی صد جی ڈی پی کا اضافہ کرتی ہے اور 37.4 فی صد مزدوروں اور کسانوں کو نوکریاں فراہم کرتی ہے۔

‏ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹیجک پراجیکٹس کے مطابق اب تک جس زمین کی نشاندہی کر دی گئی ہے اس کا کل رقبہ 4.4 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 1.3 ملین ایکڑ پنجاب میں، 1.3ملین ایکڑ سندھ،1.1ملین ایکڑ خیبرپختون خوا اور0.7 ملین ایکڑ بلوچستان میں ہے۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں 80فی صد ہائبرڈ بیجوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے پیداوار میں30سے50فی صد تک اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں آٹھ فی صد ہائبرڈ بیج استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بیجوں کی ضرورت 1.7 ملین ٹن ہے جبکہ اس کی موجود مقدار صرف 0.77 ملین ٹن ہے۔ 

کوشش کی جا رہی ہے کہ تھر، تھل اور کچھی کینال میں نہری منصوبوں کو تیزی سے مکمل کیا جائے۔ میجر جنرل شاہد نذیر کے مطابق پاکستان میں ہر سال سیلاب سے فصلیں تباہ اور پانی ضایع ہوتا ہے اس لیے اس منصوبے کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئی نہریں بنائی جائیں گی۔اس کے علاوہ آب پاشی کے جدید طریقوں جیسے کہ ماڈیولر ڈرپ آب پاشی،ا سپرنکلر آب پاشی اور محور آب پاشی کا استعمال کیا جائے گا۔مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے شعبوں میں زراعت، پھل، پولٹری، سولر سسٹم اور ہواسے توانائی حاصل کرنے کے شعبے شامل ہیں۔

لینڈ انفارمیشن اینڈ مینیجمنٹ سسٹم (لمز)کے مطابق پاکستان میں11بڑے حصے کاشت کےلیے ہیں۔ کل زمین 79.6 ہیکڑز ملین ہے جس میں سے 24ملین ہیکٹرز زمین پر فصلیں لگائی جاتی ہیں جبکہ 9.1ملین ہیکٹرز بنجر زمین ہے جس پر کام کر کے اسے زرعی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

بھاری سرمایہ کاری کی توقع

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زرعی انقلاب سے آئندہ 5 سالوں میں 50 ارب ڈالرز تک سرمایہ کاری اور چالیس لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک میں ساڑھے چار ارب ڈالرز کا خورنی تیل درآمد کیاگیا۔ ہمیں اس کے تدارک کے لیے بھی زرعی انقلاب سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ وزیراعظم شہبازکا کہنا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی حالات قرض سے نہیں سرمایہ کاری سے ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ خلیجی ممالک پاکستان گرین انیشیٹیو میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ کوئی بھی سرمایہ کار سیاسی حالات سازگار نہ ہونے تک سرمایہ کاری نہیں کرتا۔

ہم اپنے دوست کو یقین دلائیں کہ پیروں پر کھڑے ہونے جارہے ہیں تو وہ مزید ساتھ دیں گے۔ زرعی انقلاب کے منصوبے سے چار پانچ سال میں پچاس ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری آئے گی اورچالیس لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہم انشا اللہ دو سال میں پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام دلوائیں گے۔ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی اقتصادی سکیورٹی کومستحکم کریں اور زرعی معیشت کوبہت مضبوط بنائیں۔

غذائیت کی کمی صحت عامہ کے لیے بہت بڑا چیلنج 

عالمی ادارہ خوراک نے پاکستان کی منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت کے ساتھ مل کرچند برس قبل ایک رپورٹ تیار کی تھی۔اس رپورٹ میں درج اعداد و شمار ،بہت تکلیف دہ،چشم کشا اور ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور پاکستان کےسرکاری اعداد و شمار کے ذریعے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملک میں غذائی قلت کے سبب پیدا ہونے وا لے صحت کے مسائل کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال ساڑھےسات ارب امریکی ڈالرز کے مساوی اقتصادی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق خوراک اور غذائیت میں کمی پاکستان میں صحتِ عامہ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کی وجہ سے ملک اور قوم کو شدید نقصانات اور گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ان کے مطابق متوازن غذاانسان کی صحت کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ ہر فرد کی غذا اور توانائی کی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔تاہم جب بھی کسی انسان کے جسم میں غذا ئیت کی کمی ہو گی اس سے پوراجسم متاثر ہوگا اور صحت کے مسائل پیدا ہوں گے۔ 

ان کے بہ قول اگرچہ نو زائیدہ بچوں کے لیے ماں کا دودھ اہم غذا ہے، لیکن اس کے ساتھ دودھ پلانے والی ماؤں کی اپنی غذائی ضروریات کا پورا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مائیں بچوں کو دودھ پلا رہی ہوں، لیکن خود ان کے لیے مناسب خوراک دست یاب نہ ہو ۔ جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں ماؤں کے ساتھ بچوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق غذائیت کی کمی کی وجہ سے نہ صرف انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ یہ صحت مند افرادی قوت کی فراہمی کی راہ میں چیلنج بھی ثابت ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہماری 21 سے 23 فی صد آبادی غذا کی زیادہ تر ضروریات گندم سے پوری کرتی ہے اور وہ گوشت، دودھ اور پھل خریدنے کی متحمل نہیں۔ ماہرین کے مطابق یہی غذائی قلت بیماریوں کو موت کا عفریت بنا دیتی ہے۔

پاکستان اگرچہ زرعی اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے، اس کے باوجود تحفظِ خوراک کا مسئلہ پاکستان میں خوف ناک روپ اختیار کرگیا ہے۔ ملک میں بہت بڑی تعداد میں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا بڑا سبب افراطِ زر کی بلند شرح، معاشی پس ماندگی اور حکومت کی جانب سے زرعی پیداوار پر سبسڈیز میں کمی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک بن جائے گا اور 40 سال بعد فصلوں کے لیے پانی کی عدم فراہمی غذائی بحران کو شدید تر کردے گی۔

چیلنجز

زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی۔ الیکٹرک ٹیوب ویل ناکارہ ہوگئے ہیں، عمدہ بیج میسّر نہیں، بروقت پانی نہ ملنے سے تیار فصل تباہ ہوجاتی ہے۔ یوں کسان کی محنت، پَیسہ، کھاد، سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔ 

زراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نئے ڈیم بنانااچھا فیصلہ ہے۔اس کے ساتھ نہروں، کھالوں کو پختہ کرکے اور ان کی مرمّت کرکے اس قابل بنایا جائے کہ پانی ضایع ہوئے بغیر مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔ سندھ میں چھ زرعی زون ہیں، موسم، سماجی ڈھانچے، درجۂ حرارت،شہر اور وہاں کے لائیو اسٹاک اور لگائی گئی فصل کے حساب سے پانی کی مطلوبہ مقدار ملنی چاہیے۔ آب پاشی کا نظام پے چیدہ ہے۔ 

زراعت کی ترقی کے لیے آبی وسائل کوجدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہے، جس کے بغیر سبز انقلاب نہیں لایا جاسکتا۔ سبز انقلاب لائے بغیر ہم ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکتے۔ زراعت کے شعبے میں سرکاری سطح پراور نجی بینکس کی جانب سے فراہم کیے گئے قرض اپنی جگہ ، مگر اس سے حالات میں بہتری کے امکانات کم ہیں، کیوں کہ بینک صنعتی شعبے کے مقابلے میں زیادہ شرحِ سودپر قرضے فراہم کرتے ہیں، کسان اس شرحِ سود پر قرض نہیں لے سکتا۔ بینکس کو چاہیے کہ کاروں اور دوسری الیکٹرانک اشیاء کی لیزنگ اسکیمز کی طرز پر زرعی قرضہ اسکیم متعارف کرائیں۔

ان اسکیمز سے کسانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت 45 فی صد سے زاید آبادی زراعت کے پیشے سے منسلک ہے، اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ملکی معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔ لوگ زراعت کے پیشے کو خیرباد کہہ کر شہروں کا رخ کریں گے۔ دوسرا اہم مسئلہ مارکیٹنگ کاہے۔ اس بجٹ میں بھی مارکیٹنگ اسٹرکچر میں بہتری کے لیے کسی نئی پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا۔60 فی صد منافع مڈل مین، یا آڑھتی لے جاتے ہیں پھر آدھا مال شہر تک آتے آتے ضایع ہوجاتا ہے۔ حیدر آباد ہی کو لیجیے، زرعی اجناس کراچی لائی جاتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ بجٹ میں مختلف علاقوں میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کے قیام کے لیے رقم مختص کرتی۔

ہم کرسکتے ہیں

زراعت مقامی صنعت کے لیے خام مال پیدا کرتی ہے۔اس صنعت کو اپنے پَیروں پر کھڑا کرنے کے لیے زرعی مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کردینی چاہیے۔۔ تحقیقی ادارے پہلے ہی موجود ہیں، مگر اُن کے آپس میں اور کسانوں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے تحقیقی کاموں میں کسان کو شامل کیے بغیر کام یابی ممکن نہیں ہے۔ عملی اقدامات کے بغیر سب بے سود ثابت ہوگا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زرعی شعبے کی نتائج کے لیے تین سے چار ماہ تک انتظار کرنا ہوتاہے۔ لیکن صنعتی شعبے سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے پانچ سے آٹھ برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے، لہٰذا زرعی شعبہ پر توجہ دے کر ہم جلد اچھے نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ہسپانیہ کی مثال ہے۔ وہاں کے جنوبی صحرا تیبرناس کا شمار یورپ کی خشک ترین جگہ میں ہوتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ جگہ ویران، بیاباں مناظر کی عکس بندی کرنے والے فلم سازوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ لیکن پھر اس زمین پر شگوفے کِھلنے شروع ہوئے اور آج یہ بنجر صحرا نصف سے زاید یورپ کے لیے تازہ سبزیاں اور پھل پیدا کر رہا ہے۔ اس کا سہرا گرین ہاؤسز (شیشے سے بنی ہوئی عمارت جس میں پودوں کو موسمی تغیرات سے بچاکر اگایا جاتا ہے) کے سر ہے۔ اس کی ابتدا 1963میں اسپین کے ایک ادارے Instituto Nacional de Colonización نے کی اور زمین کی تقسیم کے ایک منصوبے کے تحت کچھ گرین ہاؤسز تیار کیے۔

ان گرین ہاؤسز میں اُگنے والے صاف ستھرے پھل اور سبزیوں نے اسپین کے صوبے المیریا کے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور لوگوں نے تیبرناس میں گرین ہاؤسز کی تعمیر میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ آج گرین ہاؤسز تیبرناس صحرا کے50ہزار ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئےہیں اور المیرا اسپین کی معیشت میں ڈیڑھ ارب ڈالرز سالانہ کا اضافہ کررہا ہے۔

تیبرناس میں پھیلے گرین ہاؤسز صرف ایک معاشی کرامت نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ وہ ایک خیال کو حقیقت میں ڈھالنے کا عملی ثبوت ہیں۔ ماحول اور زمین کو کنٹرولڈ ماحولیاتی فارمنگ کے لیے استعمال کرنا بہت اچھا خیال ہے۔ گرین ہاؤسز میں پھل اور سبزیوں کی فی ایکٹر پیداوار باہر اُگنے والی فصل کی نسبت بہت زیادہ اور صحت بخش ہے۔ ہمیں بھی کچھ ایسے ہی منصوبوں پر عمل کرنا ہوگا۔