سمجھ دار لوگوں نے ہمیشہ ہر کام میں اعتدال روا رکھنے کی تلقین کی ہے ،جو ہم اپنے ذمے لیتے ہیں یا وہ منصوبہ جو ہم بناتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی کیا کرنے کی خواہش یاکوشش کرتاہے۔ اس کام کو انجام دینے کے طریقے مسائل کو جنم دیتے ہیں جن کی وجہ سے دلائی گئی امیدیں اپنا اثر کھو دیتی ہیں اور دیکھے گئے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کے موجودہ حالات اس کی ایک بہترین مثال ہیں کہ خواب کس طرح بکھر تے ہیں۔ ایک متحرک اور ترقی پسند معاشرے کا خواب، جیسا کہ قائد نے 11 اگست 1947 کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں بیان کیا ۔ اگرچہ وہ خطاب اب تک اتنے چرکے برداشت کرچکا، اتنے گھائو سہہ چکا کہ شناخت تک باقی نہ رہی۔ شیطانی چالبازیوں اور وقت کے جبر کے سامنے کسی نہ کسی طور اپنا بچائو تو کرپایا لیکن اس اہم خطاب میں موجود خواب کی جگہ ایک غیر نوشتہ پیمان نے لے لی ۔اس کے مطابق ریاست کو مکمل کنٹرول میں رکھتے ہوئے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسے مز یدبدحالی اور مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ جب بھی امید کی کرن چمکتی نظر آئی، اسے بے دردی سے بجھا دیا گیا۔
یہ بنیادی خرابی معاشرے کے کسی ایک طبقے یا حکمرانوں کے کسی ایک گروہ تک محدود نہیں ۔ اس کے جراثیم ان سول اور فوجی حکمرانوں کے دائرہ کار میں پھیلے ہوئے تھے جو اقتدار پر فائزہوئے یا جنھوں نے خود کو ملک پر مسلط کیا۔ ان میں سے ہر ایک اپنے پیشرو سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔ ایک طرف ریاست عملی طور پر بے دم اور نڈھال ہوچکی ہے، دوسری طرف اقتدار پر قابض افراد کے ذاتی خزانے ناقابل تصور حد تک بڑھ چکے ہیں۔ جیسے جیسے ملک کا خون نچوڑا جاتا رہا، ذہنی غلامی پر مائل نقیب اور حاشیہ بردار تخت نشین ہونے والوں کے ناقابل تسخیر اورذاتی مفادات سے بالاتر ہونے کے گن گاتے اور انھیں بیڑیوں میں جکڑی قوم کے نجات دہندگان قرار دیتے رہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب لوگوں کی بڑی تعداد اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوشش میں تھی۔ دن میں دو وقت کے کھانے کے حصول کیلئے ہاتھ پائوں ماررہی تھی۔
جبکہ داخلی تقسیم ، بے چینی اور دیوالیہ ہونے کے قریب معیشت نے حالات کو مزید پیچیدہ کردیا ۔پاکستان غیر ملکی مداخلت کا آسان ہدف بن چکا ہے ۔ماضی قریب کے حالات سب کچھ بتارہے ہیں۔اس صورت حال میں آئی ایم ایف کا کردار اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کس طرح ہمہ گیر، کثیرالجہتی اور بین الاقوامی مفاد پرست گروہ اپنے پنجے وقت کے ساتھ ساتھ مزیدگاڑتے ہوئے ریاستی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میںآچکے ہیں۔ یہ چیز ملکی بقاکیلئےاس قدر خطرناک ہے کہ یہ ملک آنے والے دور میں بھی اپنے پائوں پرکھڑا ہونے کی جدوجہد کرتا دکھائی دیتا ہے ۔
خطے میں تیزی سےبدلتی ہوئی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال اور کسی سنگین منصوبے کا امکان پاکستان کی بگڑتی ہوئی حالت کو مزید متاثر کرسکتا ہے۔ نہ صرف ہمیں ایسے کسی بھی نقصان دہ اقدام میں شراکت دار بننے سے بچنا ہے بلکہ ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے اپنے اختیار اور اپنے حق پر بھی زور دینا ہے۔ خود کو اس گھمبیراور نقصان دہ صورت حال سے دور رکھنا ہوگا۔ یہ اس وقت ممکن نہیں ہوگا جب ملک متعدد فالٹ لائنوں میں تقسیم ہو جائے جو کہ ایک گروپ کے مسلط ہونے کا براہ راست نتیجہ ہے ۔ حکمران طبقے کاواحد مفاد اقتدار میں آنے کے بعد سے ایسے قوانین میں ترمیم، ردوبدل کرنا اور انھیں نافذ کرنا ہے جس سے وہ بداعمالیوں کیلئے جوابدہ ہونے کے خوف سے بے نیاز ہوجائے ۔
مغربی سرحد کے اس پار طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات گزشتہ چند مہینوں کے دوران خراب ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔ان کے نتیجے میں سینکڑوں بہادر افسران اور جوانوں کی شہادتیں ہوئیں۔ ان کارروائیوں میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ درحقیقت ان میں مزید تیزی آنے کا خدشہ ہے کیونکہ طالبان قیادت کی جانب سے آنے والے بیانات دھمکی آمیز ہیں ۔
کوئی جتنی بھی کوشش کر لے، خطے کی صورت حال غیرمعمولی طور کشیدگی میں اضافے کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے جہاں پاکستان کو ایک بار پھر فریق بننے کو کہا جا سکتا ہے۔ اس شیطانی مشق کا اصل ہدف چین ہو گا جو اس اہم موڑ پر ہمارے پاس سب سے زیادہ قابل اعتماد دوست اور شراکت دار ہے جو انتہائی آزمائش کی گھڑیوں میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے تحت کوئی غلط قدم ہمیں ناقابل بیان بحرانوں کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل سکتا ہے۔
ہمارے فیصلے حکمت اور دانائی کے تابع ہونے چاہئیں، نہ کہ ہماری روایتی سازشوں کے جس نے ماضی میں ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ایک متنازع خبط ہے جس کے ہم آج بھی اسیر ہیں۔ لیکن ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ چیلنج یہ ہے کہ کیسے؟یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ۔ راستے میں گہری کھائیاں ہیں۔ بیرونی دباؤ سے نمٹنےکیلئے قابل اعتماد اور پائیدار پالیسی کو یکجا کرنے کی لازمی شرط داخلی ہم آہنگی ہے۔ اس کے بغیرہم عدم تحفظ اور تباہ کن سوچ کا شکار رہیں گے ۔ ماضی میں اس خبط کا کوئی فائدہ ہوا ہے، نہ اس بار ایسا ہونے کا امکان ہے۔ تشدد اور فرقہ واریت کی آگ میں کودنے کا مطلب بھسم ہونے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔؟
بظاہر ریاست اور اسکے اداروں کی تمام تر توانائیاں عمران خان کا اثر زائل کرنے میں صرف ہو رہی ہیں، جو واحد قومی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں،جوملک کے چاروں صوبوں میں اب تک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ جہاں لوگ خوف زدہ ہیں کہ کبھی بھی ان کی گرفتاری ہوسکتی ہے ، لیکن اصل خوف کی آماجگاہ اقتدار کی راہ داریاں ہیں جہاں حکمران اگلے انتخابات میں عمران خان کا سامنا کرنے سے لرزاں ہیں۔ ہم المناک سقم کا شکار ہیں ۔ ہمارے سامنے ہیبت ناک برائی رقص کناں ہے اور یہ منظر تحلیل ہوتادکھائی نہیں دیتا۔