• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تین ہفتوں کی غیر حاضری کے بعد اپنے قارئین کی خدمت میں ایک بار پھر حاضر ہوں۔ پاکستان میں موسمِ گرما کے بجائے موسمِ سرما میں چھٹیاں گزارنا زیادہ سود مند ثابت ہوتا ہے ۔اس موسم میں کم از کم لوڈ شیڈنگ اور گرمی کی شدت سے دور رہا جاسکتاہے۔ یہی سوچتے ہوئے تین ہفتے کی چھٹیاں اپنی والدہ (جوکہ بیمار ہیں)اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گزاریں۔ اپنے پاکستان میں قیام اور مصروفیات کے بارے میں اپنے آئندہ کسی کالم میں تفصیل کیساتھ روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا لیکن آج میں ترکی کے وزیراعظم رجب طیّب ایردوان کے دورہ پاکستان ہی کا ذکر کروں گا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے2013ء میں سولہ سے اٹھارہ ستمبر تک ترکی کا سرکاری دورہ کیا تھا اور انہوں نے اپنے دورے میں ترکی کے وزیراعظم ایردوان کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی تھی جسے ترک وزیراعظم نے خوش دلی سے قبول کرلیا اور کئی بار پاکستان کا دورہ کرنے کے باوجود علامہ محمد اقبال کے شہر لاہور کو دیکھنے سے محروم رہنے کے باعث اس تاریخی شہر کو دیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیاجس پر وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نےانہیں لاہور آنے کی خاص طور پر دعوت دی۔ میں وزیراعظم ایردوان کے دورے سے قبل ہی اپنی سالانہ چھٹیاں گزارنے سات دسمبر کو پاکستان پہنچ چکا تھا اور میری فیملی دس روز بعد پاکستان پہنچی تاکہ جسے پاکستان کے مختلف علاقوں کو سیر کرانے کا پروگرام بھی تھا۔ اسی دوران کراچی سےجناب منظر نقوی کی دعوت پران کی ترکی سے متعلق نئی کتاب ’’دی لینڈ آف اتاترک‘‘ کی تعارفی تقریب میں شرکت کرنے کا بھی پروگرام بنایا لیکن بدقسمتی سے اس تقریب میں، میں اور میری اہلیہ دونوں ہی شرکت نہ کرسکے جس کا ہمیں افسوس ہےتاہم میں منظر نقوی صاحب کو ترکی کے بارے میں اتنی خوب صورت اور سیر حاصل کتاب تحریر کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
وزیراعظم ایردوان کے دورہِ پاکستان سے قبل حکومتِ ترکی نے اسلام آباد سے لاہور تک کی ٹکٹ روانہ کرنے کے علاوہ لاہور فائیو اسٹار ہوٹل میں میرے لئے کمرہ بھی بک کروا دیا تھا لیکن بائیس دسمبر کی شام کو لاہور ہوٹل پہنچنے کے بعد مجھے سیکورٹی کارڈ لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وزیراعظم ایردوان کی آمد تک مجھے سیکورٹی کارڈ حاصل نہ ہو سکا تھا جس کی بنا پر میں نے لاہور ائیرپورٹ جانے سے گریز کیا کیونکہ پولیس سیکورٹی کارڈ کے بغیر کسی کو بھی ہوٹل کے اندر آنے اور باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ لاہور بھر میں سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے۔ خیر اگلے روز صبح جب ترک وزیراعظم کی سرکاری مصروفیات کا آغاز ہو رہا تھا تو وزیر اعلیٰ پنجاب میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئے اور فوری طور پر میرے سیکورٹی کارڈ کا بندوبست کرتے ہوئے مجھے مترجم کے طور پر وزیراعظم ایردوان اور اپنے ساتھ رہنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب کے پی ایس او کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہے کہ ’’آپ نے کسی بھی صورت ان دونوں رہنماوں سے دور نہیں رہنا ہے بلکہ گوند کی مانند چپکے رہنا ہے۔
ہوٹل سے نکلنے کے بعد لیمو زین گاڑی میں وزیراعظم ایردوان، وزیراعلیٰ شہباز شریف، برہان قایا ترک (پاک ترک پارلیمان گروپ چیئرمین) اور راقم سوار تھے۔ ہوٹل سے نکلنے کے بعد ہی راستے میں لوگوں نے وزیراعظم کی گاڑی پر گلاب کی پتیوں کی بارش کردی۔ اپنی گاڑی پر پھولوں کی بارش دیکھ کر وزیراعظم ایردوان بہت حیران ہوئے۔ وہ راستے میں بتا رہے تھے زندگی میں پہلی بار انہوں نے پھولوں کی پتیوں کی بارش ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ لوگوں کی ترکی اور ایردوان سے گہری محبت ان کو سڑکوں پر لے آئی ہے۔ وزیراعظم ایردوان لوگوں کا جوش و خروش اور محبت کو دیکھ کر بڑے حیران ہوئے۔ ایچی سن کالج پہنچنے پر جس طریقے سے ان کا استقبال کیا گیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ ایچی سن کالج میں ایک ثقافتی میلے کا بھی بندوبست کیا گیا تھا تاکہ انہیں پاکستان کے تمام علاقوں کی ثقافت سے متعارف کرایا جاسکے۔ وزیراعظم ایردوان کے مختلف اسٹالوں کے دورے کے دوران تمام ہی ہنر مندوں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ دستکاری کے نمونے انہیں پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جو پاکستانی ہنر مندوں کی ترکی سے محبت کی عکاسی کررہی تھی۔ اس موقع پر ایچی سن کالج کی سیر کرانے کیلئے وزیراعظم ایردوان اور ان کی اہلیہ کے لئے دو الگ الگ بگھیوں کا بندوبست کیا گیا۔ پہلی بگھی میں وزیراعظم ایردوان، وزیراعلیٰ شہباز شریف، برہان قایا ترک اور راقم (مترجم کی حیثیت سے) سوار تھے جبکہ دوسری بگھی میں امینے ایردوان، ان کی صاحبزادی ثمیّہ ایردوان اور مترجم سوار تھے۔ ایچی سن کالج میں وزیراعظم ایردوان اور ان کے وفد کے لیے ٹینٹ پیگینگ (Tent Pegging) یا دوسرے الفاظ میں نیزہ بازی کے مقابلے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس مقابلے میں وزیراعظم ایردوان نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور کامیابی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو دل کھول کر داد دی۔ مقابلے کے اختتام پر وزیراعظم ایردوان کو اعلیٰ نسل کا عربی گھوڑا "نیست اورل" تحفے کے طور پر پیش کیا گیا جسے انہوں نے بخوشی لیکن قدرے محتاط ہو کر قبول کیا (وزیراعظم ایردوان چند سال قبل استنبول میں ہجوم میں گھڑ سواری کرتے ہوئے گھوڑے کے بدک جانے کی وجہ سے گر گئے تھےاور ان کو معمولی چوٹ بھی لگی تھی اس کے بعد سے وہ گھڑ سواری یا گھوڑے کے پاس جانے کے معاملے میں بڑے محتاط ہوگئے ہیں) اس بار وزیراعظم کی ہدایت پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے رائیونڈ جانے کے لئے راستے کا خصوصی انتخاب بھی کیا گیا تھا تاکہ ہیلی کاپٹر سے نیچے چلتی ہوئی میٹرو بس بھی معزز مہمان کو دکھائی جاسکے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ شہباز شریف نے میٹرو کے راستے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیراعظم ایردوان کو بتایا کہ’’کبھی شاگردبھی اپنے استاد کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ استنبول میں قادر توپ باش نے ڈھائی سال میں میٹرو بس سسٹم پایہ تکمیل تک پہنچایاتو ہم نے گیارہ ماہ کی مختصر سی مدت میں میٹرو سسٹم کو مکمل کیا ہے‘‘۔ رائیونڈ ہیلی پیڈ پر وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم ایردوان کا استقبال کیا۔ انہوں نے اس موقع پر گرمجوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم ایردوان کو اپنی گاڑی کی اگلی نشست پر بٹھایا جبکہ راقم اور وزیراعلیٰ شہباز شریف پچھلی نشستوں پر براجمان ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف گاڑی ڈرائیو کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے میں موجود اسپتال اور خیراتی اداروں اور ان اداروں کی تعمیر میں اپنے والد کے رول کے بارے میں آگاہی فراہم کررہے تھے۔ وزیراعظم اپنے معزز دوست کو لے کر جب اپنے گھر میں داخل ہوئے تو گاڑی کی دونوں جانب مور رقص کرتے ہوئے معزز مہمانوں کا استقبال کررہے تھے۔ وزیراعظم نے معزز مہمان کو اس فارم ہاوس میں مختلف اقسام اور رنگوں کے پانچ سو سے زائد مور موجود ہونے سے آگاہ کیا۔
تازہ ترین