• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کربلا کے معرکے نے جہاں حق و باطل کے درمیان فرقان اور برہان قائم کی ، وہیں ایسے ایسے لازوال کرداروں کو جنم دیا کہ آج تک عقل انسانی حیرت و استعجاب کے سمندر میں غرق ہے۔ ایسے ہی عظیم اور لازوال کرداروں میں سے ایک کردار کا نام حُر ابنِ یزید الریاحی التمیمی ہے۔ یہ حضرت حُر بنو تمیم کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور فوج میں نوجوانی ہی میں ایک سپاہی کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی تھی ۔ مگر جلد ہی اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے ایک مشہور و معروف سردار کی حیثیت اختیار کر لی۔ کوفے میں آباد تھے، مگر جنگی مہمات کے سلسلے میں زیادہ تر کوفے سے باہر رہتے تھے۔ اس لیے جب کوفے والوں نے امام حسینؓ کو خطوط لکھے اور کوفے آنے کی دعوت دی تو وہ ان حالات سے بے خبر تھے۔

حضرت حُر کسی اور محاذ پر تھے جب انہیں یزید کے تخت نشینی کی خبر ملی اور کچھ ہی عرصے بعد اُسے حکم نامہ ملا کہ نواسۂ رسول ؐ ،حسین ابن علیؓ کا راستہ روکو ۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک ہزار سپاہی ( بعض روایات میں تین ہزار سپاہی آیا ہے ) لے کر روانہ ہوا۔ اُدھر فرزندِ رسول ؐ مکہ سے روانہ ہوکر منزلیں طے کرتے ہوئے بطنِ عقبہ اور شراف کی منزل سے ہوتے ہوئے ذی حشم یا ذی حسم کے مقام پر پہاڑ کے دامن میں خیمہ زن ہوچکے تھے۔ یہی وہ منزل ہے جہاں حُر کے لشکر کا امام اور آپ کے ساتھیوں سے آمنا سامنا ہوا۔

لیکن آمنا سامنا اس طرح ہوا کہ حُر کا لشکر پانی کے ختم ہوجانے کے سبب پیاسا تھا اور آنے کا مقصد بیان کرنے سے پہلے حُر نے امام سے اپنے اور اپنے لشکر کی پیاس کا شکوہ کیا۔ رحمۃ للعالمینؐ کے فرزند نے فوراً ہی اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ مشکیزوں کے منہ کھول دیئے جائیں اور حُر اور اُس کے سپاہیوں کو سیراب کیا جائے۔ جب حُر اور اُس کے سپاہی اپنی پیاس بجھانے میں مصروف تھے۔ امام کی نگاہیں حیوانوں پر پڑیں جن کی زبانیں پیاس سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ 

امام نے حکم دیا کے ان کے حیوانوں کو بھی سیراب کیا جائے ۔ جب حُر اور اُس کا لشکر سیراب ہوچکا تو اب حُر ایک عجیب کیفیت میں تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح حسینؓ ابن علیؓ کے سامنے اپنے آنے کا مدعیٰ بیان کرے۔ اسی اثناء میں نماز کا وقت ہوا ۔ حُر جو پہلے ہی کشمکش میں مبتلا تھا۔ اپنے سپاہیوں سے یہ کہتا ہوا حسینؓ کے لشکر کی طرف چلا کہ بہترین موقع ہے فرزند رسول ؐ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا۔ امام کی امامت میں نماز تمام ہوئی تو اب حسین ؓنے اپنے ساتھیوں کو اِس مقام سے کوچ کا حکم دیا۔ حُر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے امام حسین ؓکو روکے ۔

بالآخر جب حُر نے دیکھا کہ امام اور اُن کے ساتھی سامانِ سفر باندھ چکے ہیں اور کوچ کرنا ہی چاہتے ہیں۔ امام حسین ؓبھی اپنی سواری پر سوار ہوچکے ہیں تو اب حُر کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ آگے بڑھا اور کہا کہ فرزند رسولؐ، مجھے حکم ہے کہ میں آپ کو جہاں پاؤں، وہیں روکوں (اور بعض روایات میں نقل ہے کہ میں آپ کو اپنے ساتھ ابنِ زیاد کے دربار میں پیش کروں) امام نے حُر کی بات ماننے سے انکار کردیا ۔ بات آگے بڑھی اور حُر نے آگے بڑھ کر امام کے فرس کی لگام کو پکڑ کر کہا کہ فرزند رسولؐ میں حکم کے آگے مجبورہوں، میں آپ کا راستہ روکوں گا۔

امام نے غصے سے فرمایا "چھوڑ میرے فرس کی لگام تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے " یہ سن کر حُر نے لگام چھوڑ دی اور سرجھکاکر کہتا ہے کہ اے ابنِ علیؓ آپ تو ایسے کہہ سکتے ہیں، مگر میں یہ جرأت نہیں کرسکتا ۔ ہاں اگر آپ کی جگہ کوئی اور یہ جملہ کہتا تو میں جواب ضرور دیتا ۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا لشکرِ یزید میں سے کسی اور نے حسینؓ کا یہ احترام کیا ؟ اور کیا کسی اور نے یہ سوچا کہ حسین ؓ کس کے بیٹے ہیں ؟ حالانکہ سب جانتے تھے کہ حسینؓ خاتون جنت کے صاحبزادے ہیں اور وہ ہستی ہیں جن کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا :حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے۔

پھر حُر نے امام سے درخواست کی کہ آپ کوئی درمیانی راہ نکالئے، میں آپ سے جنگ کرنا نہیں چاہتا۔ یوں یہ دونوں کاروان کربلا تک پہنچے اوروہاں ابن زیاد کا لشکر عمر ابن سعد کی سربراہی میں امام حسین ؓسے جنگ کے لئے پہنچ گیا۔ امام مظلوم کا قافلہ ۲ محرم الحرام ۶۱ ہجری کو کربلا پہنچا تھا۔ اب حُر دیکھ رہا تھاکہ فرزند ِ بوتراب سے جنگ کے لیے لشکر پر لشکر آرہے ہیں اور دوسری طرف ۵ محرم کو حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے خیمے نہر علقمہ کے ساحل سے ہٹا دیئے گئے۔

حُر کی تشویش اور پریشانی اُس وقت اور بڑھ گئی جب ۷ محرم کو حسین ؓاور ان کے قافلے پر پانی بند کردیا گیا ۔ مگر اب بھی حُر کو یہ امیدتھی کہ جنگ نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اس بہادر انسان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ جس رسولؐ کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں، بھلا اُس کے بیٹے سے کون جنگ کرے گا ۔ مگر شبِ عاشور کے ماحول کو دیکھ کر حُر کو یقین ہوگیا کہ صبح جنگ ضرور ہوگی۔ اب حُر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ احساس ِجرم اور گناہ اِس بہادر ماں کے بہادر بیٹے کو چین نہیں لینے دے رہا تھا اور جب رات کے ایک پہر اُس نے خیام حسینی سے معصوم بچوں کی العطش العطش ( ہائے پیاس ، ہائے پیاس) کی صدائیں سنیں تو یہ احساس جرم اور بڑھ گیا کہ یہ اُسی حسینؓ کے بچوں کی صدائیں ہیں جس نے میری اور میرے لشکر کی پیاس بجھائی تھی، بلکہ میرے جانوروں تک کو سیراب کیا تھا۔

حُر اِسی بے چینی کے عالم میں پسرِ سعد سے ملاقات کرتا ہے اور جب اُسے یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ صبح جنگ ضرور ہوگی تو وہ اپنے بھائی، بیٹے اور غلام کے ساتھ شامی لشکر کو چھوڑ دیتا ہے اور حسینؓ سے معافی مانگنے اور اللہ کی بارگاہ میں تو بہ کی غرض سے خیامِ حسینی کی طرف چل دیتا ہے ۔ یہ اتنا معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ یہاں ذرا غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حسینؓ کے ساتھ صرف ستر(۷۰) بہتر (۷۲) افراد رہ گئے ہیں اور اُس طرف ہزاروں کا لشکر ہے اور یہ بات طے ہے کہ صبح جو بھی حسینؓ کے ساتھ ہوگا ،قتل کردیا جائے گا۔ مگر حُر جانتا ہے کہ حسینؓ سے جنگ کرنے کے بعد قیامت تک کی ذلت ہے اور حسینؓ پر جان قربان کرکے قیامت تک زندگی اور عزت ہے اور پھر حسینؓ جوانانِ جنت کا سردار بھی تو ہے۔ 

حُر امام کی خدمت میں حاضر ہوا ، قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگی توبہ کی۔ امام نے فرمایا ’’جا حُر میں نے بھی معاف کیا اور میرے اللہ نے بھی‘‘ صبح ہوتے ہی جب میدان کارزار گرم ہوا تو پہلے حُر کا غلام پھر بھائی اور پھر بیٹا شہید ہوئے۔ پھر حُر میدان میں آئے۔ پہلے پسر سعد اور اُ س کے لشکر کو و عظ ونصیحت کی، پھر دلیرانہ حملے کئے، آخر زخموں سے چُور ہوکر گھوڑے سے گر پڑے حسین ؓ حُر کے سرہانے آئے۔ حُر کا سر اٹھا کر آغوش میں رکھا اور فرمایا: حُر ،تیری ماں نے تیرا نام صحیح رکھا تھا تو دنیا میں بھی آزاد رہا اور آخرت میں بھی آزاد رہے گا۔

حضرتِ حُر کربلا میں فرزند رسول ؐ پر اپنی جان قربان کر کے قیامت تک کے لیے باطل سے حق کی طرف آنے والوں کے لیے ایک استعار ابن گئے۔ آج بھی دنیا میں نہ جانے کتنے حُر انتظار میں ہیں کہ کوئی حسینؓ والا بن کر حسینی انداز سے آواز دے کر دیکھے۔ یہ احرار مظلوموں کے لشکر میں شامل ہوجائیں گے۔