مولانا محمد امجد خان
محبتِ اہلِ بیت اطہار ؓحقوقِ پیغمبر میں سے ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا احترام و تقدس ، عظمت و رفعت، ان سے محبت و مودّت اور ان کی تطہیر و تقدیس کا اعتقاد و یقین رحمتِ کائنات حضور خاتم الانبیاء ﷺ کےحقوق میں سے ہے۔ سرورِ دوعالم ﷺ کی رسالت و ختم نبوت کی شہادت دینے والے ہر فرد کے ذمے ہے کہ وہ اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے بارے میں اپنا دل صاف، خیال پاک، سوچ طاہر اور فکر شفاف رکھے، ان میں سے کسی فرد سے متعلق ادنیٰ فکری کجی اور قلبی میل، آخرت میں وبالِ جان اور نجات میں رکاوٹ ہے۔
اس پر متعدد روایات اور دلائل موجود ہیں بڑا جان دار اور زور دار فرمان خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ہے جو صحیح بخاری سمیت متعدد کتبِ حدیث میں موجود ہے۔ آپ فرماتے ہیں:" اہلِ بیت اطہارؓ کے حوالے سے ذاتِ پیغمبر کا پاس اور لحاظ رکھو۔ رسول اللہ ﷺکی تعظیم و توقیر اور اکرام و اعزاز کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺکے افرادِ خانہ و خاندان کی تکریم و تعظیم کی جائے اور ان سے قلبی محبت کی جائے۔ خود رسول اللہ ﷺ کے فرامین مقدسہ بھی اہلِ بیتؓ میں سے مختلف شخصیات کے بارے میں موجود ہیں جن میں صراحت و وضاحت سے یہ فرمایا گیا کہ میری محبت کے نتیجے میں میرے اہلِ بیت ؓسے بھی محبت ہو۔
آپﷺ کی نسل پاک آپ کی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے چلی اور اللہ کریم نے شہزادوں سے اس نسل کو چلایا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کے ذریعے ہمیں دولتِ ایمان ونعمت اسلام سے سرفراز فرمایا۔ حضور اکرم ﷺ نے مصائب وتکالیف برداشت کرکے دین کی تمام تر تفصیلات صحابہ کرامؓ واہل بیت عظامؓ کے ذریعے امت تک پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور امت کی ہدایت اور جنت میں امت کی کثرت کی مقبول دعائیں مانگیں اور قیامت میں نجات کےلیے شفاعت کا وسیلہ باقی رکھا۔ لیکن آپ نے احکام کی تبلیغ اور اس محبت وشفقت پر کوئی بدلہ وعوض نہ چاہا،بلکہ اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت ومودت کا اظہار فرمایا۔
جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:ترجمہ :اے محبوب ﷺ!آپ فرمادیجئے! میں تم سے اس پر کچھ اجر نہیں چاہتا ، بجز وقرابت داروں کی محبت کے۔ (سورۂ شوریٰ:23) جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور اکرم ﷺکی خدمت بابرکت میں عرض کیا کہ وہ قرابت دار کون ہیں جن سے محبت کرنا ہم پر ضروری ہے؟حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:علی ؓ،فاطمہؓ اور ان کے دونوں شہزادے رضی اللہ عنہم ۔ (معجم کبیر طبرانی)اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے محبت کرنے کا مطالبہ بظاہر تبلیغ اسلام کا بدلہ معلوم ہوتا ہے، لیکن بات ایسی نہیں ہے بلکہ ایمان کے حصول کے بعد اس کی حفاظت کا انتظام انتہائی ضروری ہے۔
شیطان ہروقت ایمان کو تاراج کرنے کے مواقع ڈھونڈتاہے ،حفاظت ایمان کی خاطر اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی محبت ومودت کا حکم دیاگیا، ان پاکباز ہستیوں سے تعلق ووابستگی باعث نجات اور ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ اپنی اولاد کو تین چیزوں کا ادب سیکھاؤ : نبیﷺ کی محبت، اہل بیتؓ کی محبت اور قرآن کی تلاوت کا ذوق و شوق۔(سیوطی، الجامع الصغیر)اسی مناسبت سے آج جنتی جوانوں کے سردار،جگر گوشۂ بتول،نواسۂ رسول،سید الشہداء ،اہل بیتؓ کے ماتھے کا جھومر سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل وکمالات کا ذکر جمیل کرکے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی مطلوب ہے۔
حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل وکمالات میں اگرکوئی روایت بھی وارد نہ ہوتی تو آپ کے اعزاز کےلیے یہی کافی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے نواسے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کے لخت جگر اور نور نظر ہیں۔ حضور اکرم ﷺنے آپ کی دائمی نسبت اور کمال قربت کو ظاہر کرتے ہوئے بیان فرمایا:ترجمہ:حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسین ؓسے ہوں۔ (جامع ترمذی) علمائےکرام نے اس حدیث کے کئی مطالب بیان کیے ہیں۔ ایک مطلب بڑا ہی ایمان افروز ہے کہ حسینؓ میرا ہے اور میں حسینؓ کا ہوں۔
حضرت حسینؓ کی ولادت باسعادت 5 شعبان المعظم4 ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ حضر ت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور القاب مبارکہ، ریحانۂ رسولﷺ، سیدشباب اہل الجنۃ ،الرشید، الطیب ، الزکی ،السید، المبارک، اور حب ومحبوب رسول ﷺ ہیں۔جب آپ کی ولادت ہوئی توحضور نبی اکرمﷺ نے آپ کے کان میں اذان کہی۔ (معجم کبیر طبرانی)
حضر ات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما جنت کی زینت ہیں ۔امام طبرانی نے معجم اوسط میں روایت نقل کی ہے کہ جب جنتی حضرات جنت میں سکونت پذیر ہوںگے تو جنت عرض کرےگی پروردگار ! ازراہ کرم کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ تو، دو ارکان سے مجھے آراستہ فرمائےگا ؟ تو رب العزت ارشاد فرمائے گا: کیا میں نے تجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے مزین نہیں کیا؟ یہ سن کر جنت دلہن کی طرح فخر و ناز کرنے لگے گی۔( معجم اوسط طبرانی)حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکی محبت ، محبوبیت خداوندی کی ضمانت ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرات حسنین ؓ کو اپنی گود مبارک میں بٹھایا اور آپ کے لبوں کو بوسا دے کر دعاء فرمائی: ترجمہ:الٰہی میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے اسے اپنا محبوب بنا لے۔(جامع ترمذی)
گویا حب الٰہی اور حب رسول ﷺ کے حصول کا ذریعہ حضرات حسنینؓ سے قلبی محبت ہے۔ امام حسینؓ کی خاطر حضور اکرمﷺ کا سجدہ دراز فرمادینا۔حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایاکہ حضور اکرم ﷺعشاء کی نمازکیلئے ہمارے پاس تشریف لائے،اس حال میں کہ آپ حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنھما کواٹھائے ہوئے تھے، پھر حضور اکرم ﷺ آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھا دیا، پھر آپ ﷺنے نمازکیلئے تکبیر فرمائی اور نماز ادا فرمانے لگے ،اثنائے نماز آپ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں: میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ سجدے میں ہیں اور شہزادے رضی اللہ عنہ آپﷺ کی پشت انور پر ہیں ، تو میں پھر سجدے میں چلا گیا، جب رسول اللہ ﷺ نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺنے نمازمیں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا، یا آپ ﷺپروحی الٰہی کا نزول ہورہا ہے ،تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہوگیا تھا،اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے جلدی ناگوار تھی۔(سنن نسائی ،مسند امام أحمد)
حضرت زید بن ابی زیادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضوراکرم ﷺ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے حجرہ مبارکہ سے باہرتشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دولت خانہ سے گزر ہوا امام حسین رضی اللہ عنہ کی رونے کی آوازسنی توارشاد فرمایا: بیٹی، کیا آپ کو معلوم نہیں!ان کارونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔بچپن میں امام حسین رضی للہ عنہ کا رونا حضور اکرم ﷺکی اذیت کا باعث ہے تو غور کرنا چاہیے کہ جن ظالموں نے معرکۂ کربلامیں امام عالی مقام ؓپر مظالم کی انتہاکردی ،آپ کے حلقوم مقدس کو پیاسا ذبح کیا، آپ کے تن نازنین پر گھوڑے دوڑائے، دیگر اہل بیت کرامؓ وجاں نثاران امام کوبے پناہ تکالیف پہنچا کر انہیں شہید کیا،چھ ماہ کے شیرخوار علی اصغررضی اللہ عنہ کوبجائے پانی پیش کرنے کے تیر چلا کر بے دردی سے شہیدکر ڈالا، ان واقعات سے حبیب پاک ﷺکی ذات پاک کو کس قدر تکلیف ہوئی ہوگی حضور اکرمﷺ کے تو اسی وقت آنسو نکل آئے تھے، جب کربلا کی مٹی آپﷺ کے سامنے پیش کی گئی تھی۔۔،کیا کربلا میں نواسۂ رسول اور شہدائے کربلا کی یہ ایذاء رسانی خالی جائےگی؟ ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ترجمہ: بیشک جولوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کوتکلیف دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کے لئے ذلت آمیزعذاب تیار کررکھا ہے ۔(سورۃ الاحزاب:57)
شہادت عظمیٰ :۔آپ ؓ کی شہادت دس محرم الحرام(61) ہجری کو کربلا میں بحالت سجدہ ہوئی اور مبارک روح بڑی سعادتوں کے ساتھ خدا کے حضور پہنچی ،جہاں یقیناً حضور اکرمﷺ نے اپنے نواسے کی لازوال قربانیوں پہ ناز کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حضور اکرم ﷺ اور آپﷺ کی آل ؓواصحاب ؓپر ان گنت درود وسلام نازل فرمائے ۔ (آمین)