• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکۂ کوہسار مری سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے سات ہزار فٹ بلند ہے۔ کسی زمانے میں اس ملکہ کا قدرتی حسن اور خوبصورت موسم بے مثال تھا مگر جب سے ملکہ کے عشاق کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تب سے مری کی مال روڈ بھی راولپنڈی کا راجہ بازار لگنے لگی ہے۔ گزشتہ سات، آٹھ برس سے رمضان المبارک شدید گرمی کے موسم میں آتا ہے لہٰذا کسی پرسکون پہاڑی مقام کی تلاش ہمیں خانس پور لے گئی۔
انگریزوں کی آباد کردہ یہ فوجی چھائونی اب ایک یونیورسٹی ٹائون بن چکی ہے۔ ایوبیہ کے قرب و جواز میں یہ بستی سطح سمندر سے 8 ہزار فٹ بلند ہے اور صوبہ پختونخوا میں واقع ہے۔ دس برس سے ، چالیس کلومیٹر طویل ٹوٹی پھوٹی سڑک تعمیر و تزئین کو ترس رہی تھی۔اب خیبر پختونخوا کی حکومت میں شاندار سڑک نہ صرف خان پور تک بلکہ نتھیا گلی تک تعمیر کردی ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ تیزی سے ترقیاتی کام کررہی ہے۔ اب خیبر پختون خوا کی حکومت نے شاندار سڑک نہ صرف خانس پور تک بلکہ نتھیاگلی تک تعمیر کر دی ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ تیزی سے ترقیاتی کام کر رہی ہے۔
کسی زمانے میں مشکور حسین یاد نے حسین و جمیل پہاڑی مقامات کے حوالے سے ایک دل نشیں مضمون ’’وادیٔ جلال و جمال‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ پہاڑ پر پہلے چند روز ہنستے مسکراتے اور باقی روتے دھوتے گزرتے ہیں۔ ہم نے آنسوئوں کا مداوا بھی ڈھونڈ رکھا ہے۔ جب اداسی امڈ کر آتی ہے تو ہم شہر اقتدار اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں ۔ اسلام آباد پہنچتے ہی اخبار کے پہلے صفحے پر نظر پڑی تو لکھا تھا ’’اعجاز الحق فریاد لے کر تھانے پہنچ گئے۔‘‘ تفصیل میں لکھا تھا کہ اعجاز الحق کا کرایہ دار کئی ماہ سے نہ کرایہ دے رہا ہے اور نہ مکان خالی کر رہا ہے۔ اعجاز الحق صاحب سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ملاقات کا وقت طے ہوا اور پھر انہوں نے ایک دکھ بھری داستان سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ 1980کے اوائل میں ان کے بینک نے تمام افسران کو تعمیر رہائش کیلئے قرضہ دیا تو انہوں نے بھی بارہ، چودہ لاکھ روپے سے اسلام آباد میں ایک گھر تعمیر کر لیا۔ کئی برس سے ایک کرایہ دار اس میں مقیم تھا۔ اس نے ایک طویل عرصے سے نہ کرایہ دیا اور نہ گھر خالی کیا۔ عدالتی احکامات کے ذریعے جا کر گھر دیکھا تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے کیونکہ کرایہ دار غسل خانوں، باورچی خانوں اور کمروں سے ٹونٹیاں، ٹائلیں اور فانوس وغیرہ لے جا چکا تھا اور اب یہ گھر نہیں ایک کھنڈر ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ میاں نواز شریف کو دعائیں دیں کہ جن کے دور حکومت میں شاہ و گدا سب برابر ہو گئے ہیں۔ رمضان المبارک کی جاگتی ساعتوں میں رات گئے تک ہماری کئی باخبر دوستوں سے ملاقات ہوئی۔
ان دوستوں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے پرویز رشید، طارق فاطمی اور اپنے سیکرٹری فواد حسن فواد کو لندن طلب کیا ہے۔ اس طلبی کے پیچھے ایک واضح مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ میاں صاحب وزیراعظم کے اختیارات کا ایک بڑا حصّہ جناب اسحٰق ڈار کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تفویض کرنے والے ہیں۔ ان باخبر حلقوں کی معلومات کے مطابق اس نوٹیفکیشن کیلئے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہ ہو گی۔ اس حکم نامے کیلئے آئین کے آرٹیکل 90(2)کو بنیاد بنایا جائے گا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی ماہرانہ رائے کے مطابق وزیراعظم اپنے اختیارات کسی اور کو تفویض نہیں کر سکتے اس لئے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ قومی اسمبلی سے کسی اور کو وقتی طور پر وزیراعظم بنوا دیں کیونکہ کاروبار مملکت کی نازک اور اہم ذمہ داریوں کیلئے ہمہ وقت وزیراعظم کا ہونا ازبس کہ ضروری ہے۔ ہم نے جب کتاب آئین کو کھول کر دیکھا تو اس کے آرٹیکل 90(2)میں عمومی طور پر لکھا ہے کہ وزیراعظم اپنے کندھوں پر آنے والی ذمہ داریوں کو براہ راست یا کابینہ کے وزراء کے ذریعے سرانجام دے سکتے ہیں۔ ممتاز قانون دان جناب ایس ایم ظفر اور فخر الدین جی ابراہیم کا مؤقف افتخار احمد چوہدری کے برعکس یہ ہے کہ وزیراعظم ملک سے غیر حاضری کی صورت میں اپنے بعض اختیارات کسی رکن کابینہ کے سپرد کر سکتے ہیں۔ یہاں ایک اور باریک نکتہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ جناب اسحٰق ڈار رکن قومی اسمبلی نہیں بلکہ وہ تو سینیٹ کے ممبر ہیں۔ تاہم دستور کا آرٹیکل 90(2)اس بارے میں خاموش ہے نیز ڈار صاحب ڈی فیکٹو وزیراعظم تو ہوں گے مگر وہ بدستور وزیر خزانہ ہی رہیں گے اور یہی ان کی پہچان ہو گی اور مجوزہ نوٹیفکیشن میں قائم مقام وزیراعظم کی طرح کی کوئی اصطلاح استعمال نہ ہو گی۔ وزیراعظم ہائوس میں اب پس پردہ محترمہ مریم نواز کا ہی حکم چلتا ہے۔ ڈار صاحب والا نوٹیفکیشن ہو بھی جائے تو اقتدار کی جوہری ترکیب و ترتیب میں تو کوئی خاص فرق واقع نہیں ہو گا البتہ ناقدین کو خاموش کرانے کیلئے یہ حربہ کسی حد تک کارگر ہو سکتا ہے۔شہر اقتدار کے باخبر حلقوں کی معلومات کے مطابق حکمران جماعت میں بھی اوپر کی سطح پر دو دھڑے وجود میں آ چکے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ کسی نے وزیراعظم کے سامنے ملک کی سیاسی صورتحال کا حقیقی منظرنامہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی بے لاگ سیاسی تبصرہ کیا ہے، اگر وزیراعظم کو بجٹ سیشن کے دوران جناب اسحٰق ڈار کی عدم مقبولیت کے بارے میں آگاہ کیا جاتا تو وہ اس طرح کے نوٹیفی کیشن کا خیال دل سے نکال دیتے۔ بجٹ سیشن کے دوران حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی کی بناء پر بار بار کورم ٹوٹا۔ کئی بار حکومتی ارکان اسمبلی میں خاموش احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے باہر نکل کر لابی میں جا بیٹھے۔ ان ارکان اسمبلی کی تعداد 70سے 80تک تھی۔ ڈار صاحب نے پارلیمنٹ ہائوس میں ارکان اسمبلی کو افطارو ڈنر پر بلایا تو ان ’’باغی‘‘ سرکاری ارکان اسمبلی کی اکثریت نے اس ڈنر کا بھی بائیکاٹ کیا۔ 188سرکاری ارکان اسمبلی میں سے صرف 63ممبران نے اس ڈنر میں شرکت کی۔ اوپر کی سطح پر بھی حکومتی جماعت دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک دھڑے میں چوہدری نثار، جناب شہباز شریف اور کچھ پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جبکہ دوسرے دھڑے میں خواجگان پیش پیش ہیں۔ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق دل و جان سے اسحٰق ڈار کے ساتھ ہیں۔ ان باخبر حلقوں کا یہ بھی اصرار ہے کہ اگر فی الواقع اسحٰق ڈار کیلئے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہو جاتا ہے تو جناب چوہدری نثار مستعفی ہو جائیں گے۔ چوہدری نثار وزیراعظم میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ طویل رفاقت کی بناء پر اپنا استحقاق سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی نگاہ انتخاب جب بھی اٹھے گی ان کی طرف ہی اٹھے گی۔
حکومتی افراتفری، بے عملی اور ارکان اسمبلی کی بڑھتی ہوئی بغاوت کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید میاں نواز شریف کو جان بوجھ کر اس ساری صورتحال سے بے خبر رکھا جا رہا ہے۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، ناراض ارکان اسمبلی کو منانا، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کی وفاداری کو قائم رکھنا اور ان ارکان اسمبلی کی شکایات کا ازالہ کرنا اور انہیں پارٹی ڈسپلن کا پابند رکھنا جناب اسحٰق ڈار کے بس کی بات نہیں۔ بجٹ سیشن کے دوران اپنے پرائے سب ہی ڈار صاحب کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کا گراف دیکھ چکے ہیں۔
حکومتی اور مقتدر حلقوں کے درمیان تنائو اور کھچائو بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے حکومتی ارکان اسمبلی نے جو رویّہ اختیار کر رکھا ہے وہ برسر اقتدار جماعت کیلئے بے حد نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پہلے قول کے مطابق خود کو احتساب کیلئے پیش کر دینا چاہئے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ٹی او آرز سے میاں نواز شریف کا نام نکلوانا چاہئے۔ حالانکہ قانونی تفصیلات سے معمولی سی واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر ٹی اوآرز سے میاں صاحب کا نام نکلوا بھی دیا جائے تب بھی جب ان کے بچّوں کا حساب کتاب ہو گا تو بات میاں صاحب تک ضرور پہنچے گی۔ اسلام آباد کے بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں صاحب سیاسی و غیر سیاسی دبائو سے محفوظ رہنے کیلئے لندن سے اپنی واپسی مؤخر کر رہے ہیں۔ یہ حلقے یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ میاں صاحب اہم ترین تقرری کا فیصلہ بھی لندن کی آزادانہ اور جمہوری فضا میں بیٹھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں میاں صاحب آزاد جمہوری فضا میں اپنے وطن کی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے تقاضوں کو بھول تو نہیں گئے۔ میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی غیر حاضری میں سیاسی طوفان نہ صرف شہر اقتدار کے اندر سے اٹھ رہا ہے بلکہ ایک طوفان اس شہر کی طرف بڑھتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے۔
تازہ ترین