ہنری کسنجر سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ امریکہ دنیا کے ہر معاملے میں مداخلت کیوں کرتا ہے؟دنیا میں جہاں بھی کچھ منفی ہو،امریکہ اور سی آئی اے کا نام ضرور آتا ہے۔ہنری کسنجر مسکرائے اور کہنے لگے کہ’’ امریکہ خود کبھی کچھ نہیں کرتا بلکہ دنیا بھر میں جوا ہم واقعات رونما ہورہے ہوتے ہیں ،امریکہ اپنے مفاد کے مطابق اس میں اپنا کردار پیدا کردیتا ہے۔‘‘شاید ہمارے اداروں نے بھی اس کلیہ کو پلے سے باندھا ہوا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے آئین شکنی کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے پر عمل کروانے کا سوچا ۔جس میں سپریم کورٹ سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کا حکم دے چکی تھی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی عملداری ہی نوازشریف کا گناہ ٹھہری اور انہیں اسی گناہ کی پاداش میں وزارتِ عظمیٰ سے نااہل کروایا گیا۔جی ہاں! نوازشریف اگر سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کروانے کے لئے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت ٹرائل نہ کرتے تو ان کے خلاف کبھی نااہلی اور پاناما اسکیم کا آغاز نہ ہوتا۔
نوازشریف کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے2013میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔تب تمام قوتوں نے نوازشریف کو ناکام کرنے کی ٹھان لی۔سب سے پہلے تو نوازشریف کی منتخب حکومت کے خلاف 35 پنکچر اور چار حلقے کھولنے کا ڈرامہ شروع کیا گیا۔جب عمران خان کے مطالبے میں جان نظر نہ آئی اور تحریک انصاف کی اسٹریٹ پاور بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ تنہاء شاہراہ دستورکو بند کرسکتی تو پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا اہتمام کیا گیا۔اس سب کا مقصدتھا کہ دھرنا منصوبے میں طاہر القادری کے مذہبی عنصر کی امداد بھی شامل ہوجائے۔جس کے بعد شاہراہ دستور پر طویل دھرنا دیا گیا۔نوازشریف پر مستعفی ہونے کےلئے دباؤ بڑھایا گیا مگرجس نوازشریف نے بندوقوں کے سامنے کہہ دیا تھا کہ Resignation, Over my Dead bodyتو یہ چند سو بلوائی ان سے بھلا کہاں استعفیٰ لے سکتے تھے؟یا ایک بزنس مین کاپیغام نوازشریف کو کیسے مستعفی ہونےپر مجبور کرسکتا تھا۔بہرحال سانحہ پشاور کے بعد دھرنے کو ختم کرنا پڑا مگر نوازشریف کو ہٹانے کا ایجنڈا اپنی جگہ موجود رہا۔اس دوران چین کے صدر شی جی پنگ نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا۔چین کے صدر کے دورے نے پاکستان کا معاشی و جغرافیائی منظر نامہ ہی بدل دیا۔چین نوازشریف کے ساتھ کام کرکے بہت اطمینان میں تھا۔چین کے صدر کے دورے کے بعد کچھ عرصہ سکون سے گزرا۔مگر نوازشریف کو نکالنے کا فیصلہ کرنے والے منصوبہ سازوں کو بھلا کہاں آرام تھا؟ایسے میں دنیا بھر میں پاناما دستاویزات کی لیک کا معاملہ سامنے آیا اور بعد میں اسے پاناما اسکینڈل کا نام دے دیا گیا۔یہاں پر ہنری کسنجر کا فارمولہ بہت خوبصورتی کے ساتھ اپلائی کیا گیا ۔
پاکستان کے تقریبا 400 سے زائد افراد کا پاناما میں ذکر تھا مگر پاناما اسکینڈل کی تحقیقات صرف نوازشریف اور ان کے خاندان سے کی گئیں۔نوازشریف کے خلاف جو والیمز 2013میں مشرف کیس شروع کرنے کے بعد تیار ہونا شروع ہوئے تھے ،2016تک ان والیمز کی تعداد 10تک پہنچ گئی تھی۔انہی تیار شدہ والیمز کو واجد ضیاء جے آئی ٹی کے ذریعے سپریم کورٹ پہنچادیا گیا اور انتہائی مہارت سے ان والیمزکو پاناما کیس کی فائل کے ساتھ لف کردیا گیا اور یوں جس سپریم کورٹ کے حکم پر نوازشریف نے طاقتوروں کی خواہش کے برعکس مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کی کارروائی کا آغاز کیاتھا،اسی سپریم کورٹ نے نوازشریف کو پاناما اور اقامہ پر گھر بھیج دیا۔باقی یہ ڈان لیکس او ر ٹوئٹس واپسی صرف شوشے تھا،مقصد نوازشریف کو صرف دباؤ میں رکھنا تھا۔لیکن اگر آج دیکھیں تو نوازشریف کے خلاف سازشیں کرنے والے تمام کردار بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اوران تمام کرداروں کے بارے میں پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔جن لوگوں نے نوازشریف کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی تھی،آج ان کی اپنی ساکھ تباہ ہوچکی ہے۔پاکستان کی سیاست ایک مرتبہ پھر نوازشریف کے گرد گھوم رہی ہے۔نوازشریف کے خلاف فیصلہ دینے والے ججزپر عوا م نے اعتبار کیا کرنا ہے ،آج ان کے اپنے ساتھی ان فیصلوں سے اتفاق نہیں کرتے اور برملا پاناما کیس کے فیصلوں کو خلاف آئین و قانون قرار دیتےنظر آتے ہیں۔نوازشریف نے نیب عدالت کے ایک فیصلے کے بعد آسمان کی طرف دیکھ کر کہا تھا کہ’’میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں‘‘پھر اس اللہ نے اپنے بندے کو سرخرو کیا اور تمام کرداروں کو بے نقاب کردیا۔آج ملک میں عام انتخابات کی بازگشت سنائی دینا شروع ہوگئی ہے۔مسلم لیگ ن کا ووٹر آج بھی نوازشریف کی طرف دیکھ رہا ہے اور نوازشریف کاانتخابی مہم کو لیڈ کرنا ہی مسلم لیگ ن کی کامیابی کی ضمانت ہوگا،کیونکہ مسلم لیگی آج بھی یہی سمجھتا ہے کہ ’’نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہی ہے‘‘ اور پنجاب میں آج بھی مسلم لیگ ن کو ووٹ نوازشریف کے نام پر پڑنا ہے۔ وگرنہ نوازشریف کی تصویر کے بغیر مسلم لیگ ن کے کئی صف اول کے رہنما الیکشن لڑ کر دیکھ لیں،شاید کونسلر بننا بھی مشکل ہوجائے گا۔بہر حال نوازشریف گردش دوراں کو ٹال کر واپس آرہا ہے۔