• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکیہ کے تاریخی، ثقافتی، سیاحتی ، تجارتی اور میڈیا مرکز استنبول میں 25 تا 28 جولائی سولہواں انٹرنیشنل ڈیفنس انڈسٹری فیئرIDEF منعقد ہوا۔

اس دفاعی نمائش میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بڑی تعداد میں مختلف ممالک نے گہری دلچسپی لی۔ امسال اس نمائش میں پاکستان سمیت دنیا کے 81 ممالک کے علاوہ بڑی تعداد میں بین الاقوامی اداروں میں نیٹو ، افریقی یونین، یورپی یونین اور امریکن بزنس کونسل جیسے اداروں نے بھر پور شرکت کی۔ اس فیسٹیول میں 772غیر ملکی وفود کے علاوہ ایک ہزار 461 فرموں نے اپنے اپنے اسٹال لگائے۔ اس عالمی دفاعی فیسٹیول میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی جس میں 15فیصد کے لگ بھگ غیر ملکی تھے۔یہ دفاعی انڈسٹری فیئر دراصل ترکیہ کی دنیا میں بڑھتی ہوئی عسکری قوت اور دفاعی صنعتی پیداوار کی غمازی کررہا تھا۔

دفاعی صنعتی پیداوار اور ترکیہ کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت کو دیکھ کر یہ بات وثوق سےکی جاسکتی ہے کہ ترکیہ دفاعی صنعتی پیداوار اور قوت کے لحاظ سے اتنی سرعت سے ترقی کررہا ہے کہ اب اس ملک کا موازنہ صرف اور صرف امریکہ، چین اور روس جیسے ممالک ہی سے کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ملک اب دفاعی قوت کے لحاظ سے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کو نہ صرف پیچھے چھوڑ چکا ہے بلکہ دفاعی صنعت کے لحاظ سے پانچویں بڑے ملک کی حیثیت حاصل کرنے کی تگ و دو کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل جیسے ممالک(یاد رہے اسرائیل نے ترکیہ کو ناقابلِ استعمال ڈرون فراہم کئے اور پھر ان ڈرونز کی مرمت کرنے سے انکار کرنے اور واپس کرنے کے اصرار پر ہی ترکیہ کیلئے خود ڈرونز تیار کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی ) ترکیہ سے اپنے تعلقات استوار کرنے اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہے ہیں۔

اس فیسٹیول میں پاکستان کی بھی کئی ایک فرموں نے اپنے اپنے اسٹال لگا رکھے تھے اور پاکستان میں بننے والے جدید فوجی سازو سامان کی نمائش کی جا رہی تھی۔ شرکاء نے پاکستانی فوجی مصنوعات میں بڑی گہری دلچسپی لی۔اس نمائش کے موقع پر پاکستان اور ترکیہ کی کئی ایک فرموں کے درمیان تعاون کے معاہدوں پر دستخط بھی کئے گئے۔ یہاں پر اپنے قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان نے ہمیشہ ہی ترکیہ کے مشکل وقت میں اس کی فوجی مدد کی ۔ قبرص کی 1974کی جنگ میں صرف پاکستان ہی ترکیہ کی مدد کو پہنچاتھا اور بڑے پیمانے پر ترکیہ کو فوجی امداد فراہم کی تھی ۔اس کے علاوہ ستر کی دہائی میں ترکیہ میں شروع ہونے والی دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں جب تمام مغربی ممالک نے ترکیہ کو اسلحہ فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا اور پابندیاں عائد کی تھیں اس وقت پاکستان ہی واحد ملک تھا جس نے ترکیہ کو اسلحہ اور گولہ بارود کسی نہ کسی طریقے سے پہنچایا تھا۔ پاکستان اس وقت دفاعی صنعت میں ترکیہ سے بہت آگے تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کی طرح دفاعی شعبے میں بھی پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ۔ اگرچہ اس انٹرنیشنل ڈیفنس انڈسٹری فیئر کا افتتاح نائب صدر جودت یلماز نے کیا تھا لیکن اس فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں صدر ایردوان نے شرکت کرتےہوئے فیسٹیول کی اہمیت کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ دنیا کو ترکیہ کی بڑھتی ہوئی دفاعی صنعت اور پیداوار سے آگاہ کیا ۔

صدر ایردوان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بزدل انسان کبھی فتحیاب نہیں ہوسکتا اور مومنوں کے دلوں پر کوئی تالا نہیں ڈال سکتا اور اگر آپ صاحبِ ایمان ہیں اور آپ میں عزم ، ارادہ ، استقامت اور جدو جہد کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو اللہ تعالی بھی آپ کی مدد کرتا ہے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ ہم نے اپنی دفاعی صنعت کے شعبے کے دروازے پوری طرح کھول دیے ہیں۔ 2002ء میں دفاعی صنعت کے شعبے میں ترکیہ میں صرف 57کمپنیاں کام کر رہی تھیں جبکہ آج ان کی تعداد بڑھ کر 2 ہزار 500 ہو چکی ہے۔ 2023 کی پہلی ششماہی میں دفاعی صنعت میں ہماری برآمدات 2ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں جبکہ اس سال کے اواخر تک برآمدات کا ہدف 6ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔

صدر ایردوان نے اس موقع پر ترکیہ کے تیار کردہ بحری جہاز ٹی سی جی انادولو (یاد رہے ترکیہ پاکستان کیلئے چار عدد جنگی بحری جہاز MİLGEMتیار کرنے کے معاہدے پر دستخط کرچکا ہے اور تین بحری جہاز پہلے ہی تیار کرکے پاکستان کے حوالے کئے جاچکے ہیں ) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب مزید جدید ٹیکنالوجی پر مبنی جنگی بحری جہاز مقامی وسائل استعمال کرتے ہوئے ترکیہ ہی میں تیار کئے جائیں گے ۔ ہم دنیا کے ان 10ممالک میں سے ایک ہیں جو اپنا جنگی جہاز خود تیار کرتے ہیں ۔ ہم صرف اپنے جہازوں کو ڈیزائن اور تیار ہی نہیں بلکہ جدید ہتھیاروں سے لے کر ریڈار اور الیکٹرانک آلات بھی تیار کررہے ہیں۔ ترکیہ مسلح ڈرونز صرف فضا اور زمین پر ہی استعمال نہیں کررہابلکہ ترکیہ دنیا کا واحد ملک ہے جو سمندر میں بھی اپنے ڈرونز کو استعمال کررہا ہے۔

صدر ایردوان نے اپنے خلیجی ممالک کے دورے کے دوران پہلے سعودی عرب کے ساتھ تاریخی مالی اور فوجی لحاظ سے سب سے بڑے معاہدےپر دستخط کئے تو اس کے بعد قطر، جہاں پہلے ہی ترکیہ کا فوجی اڈہ موجود ہے ،کے ساتھ 15مختلف سمجھوتوں پر دستخط کئے جبکہ صدر ایردوان کے دورے کے آخری مرحلے میں متحدہ عرب امارت کے ساتھ 50بلین ڈالر مالیت کے مختلف سمجھوتوں پر دستخط کئے گئے جبکہ ترکیہ اس سے قبل کویت کے ساتھ 370ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کرچکا ہے ۔ اس طرح ترکیہ مشرقِ وسطی پر مکمل طور پر فوجی لحاظ سے اپنی گرفت قائم کرچکا ہے۔

تازہ ترین