• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر شہر، ہر خطے کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے، جب کوئی شہر یاد آتا ہے ایک نافہ سا وا ہو کرمشام کومعطرکرجاتا ہے۔ یہ مشک شہروں کے مزاج سے پھوٹتی ہے، اور یہ مزاج شہروں اور خطوں کی تاریخ اور جغرافیہ سے جنم لیتا ہے، سادہ لفظوں میں کسی شہر کی یاد آئےتو وہاں کا فن تعمیر یاد آتا ہے، آرٹ گیلریاں یاد آتی ہیں، قہوہ خانے یاد آتے ہیں، فطرت کے مناظر یاد آتے ہیں۔ لیکن امریکہ کا معاملہ سب ملکوں سے مختلف ہے، ہمیں تو جب امریکہ کا خیال آتا ہے سب سے پہلے اس کی شاہراہوں کے پُر پیچ جال کا خیال آتا ہے۔ امریکہ موٹر ویز کا ملک ہے، سینکڑوں ہائی ویز، ہزاروں شاہ راہیں، لاکھوں سڑکیں، یہ 68 لاکھ کلو میٹر طویل دنیا کا سب سے بڑا روڈ نیٹ ورک ہے جس نے قریباً ایک کروڑ مربع کلو میٹرکے ملک کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔

پہلی مرتبہ لگ بھگ تین دہائیاں پہلے امریکہ آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں کی موٹر ویزکا گنجل کسی حیرت کدے سے کم نہیں لگا تھا، اور سچ تو یہ ہے کہ آج بھی یہ منظر حیرت آفرینی کا باعث بنتا ہے، یہ تجربہ کئی بار ہوا کہ کسی چار لین کی بڑی سی موٹر وے سے ایگزٹ لیا تو اس سے بھی بڑے چھ لین کے انٹر اسٹیٹ روٹ سے پالا پڑگیا۔ اب تو ان سڑکوں پر گاڑی چلانا بہت آسان ہو چکا ہے مگر جی پی ایس کی ایجاد سے پہلے، بالخصوص پردیسیوں کے لئے، یہ بہ ذات خود ایک معرکہ ہوا کرتا تھا، پہیوں کے بعد گاڑی کی سب سے اہم چیز روڈ ایٹلس ہوا کرتی تھی جس کے بغیر سفر کرنا محال سمجھا جاتا تھا، بالخصوص انٹر اسٹیٹ سفرجو کہ پندرہ بیس گھنٹے پر مشتمل ہونا ایک عام سی بات ہے۔ پچھلے ہفتے ڈیلس سے کنساس سٹی مزوری کا سفر کیا جو نو گھنٹے میں مکمل ہوا، اور کل کنساس سے واشنگٹن ڈی سی پہنچنے میں اٹھارہ گھنٹے صرف ہوئے۔

بڑی سڑکوں پر حد رفتار عموماً ستر میل فی گھنٹہ تک ہوتی ہے مگراکثر اسی میل فی گھنٹہ تک چلانے پر چالان نہیں ہوتا، اس سلسلے میں ایک ذاتی تجربہ بھی ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ انڈیانا اسٹیٹ سے گزرتے ہوئے رات کے دو بجے یک دم گاڑی کے عین پیچھے پولیس کار کی بتیاں جلنے بجھنے لگیں، جس کا مطلب تھا کہ گاڑی روک لی جائے، سو روک لی گئی۔ یہاں چالان کروانے کا بھی ایک طے شدہ طریقہ ہے، گاڑی روکنے کے بعد آپ گاڑی میں ہی بیٹھے رہتے ہیں اور پولیس افسر خود اپنی گاڑی سے اتر کر آپ کے پاس آتا ہے، اس دوران اگر آپ کے دونوں ہاتھ اسٹیرنگ پر نظر آتے رہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ خیر، پانچ سات منٹ کے طویل، انتظار کے بعد ایک افسر نے آ کر اپنا تعارف ڈپٹی شیرف کے طور پر کروایا، لمحہ بھر کو جی سے خیال گزرا کہ ہم بھی اپنا تعارف بہ طور صحافی کروائیں لیکن نہیں کروایا۔ افسر نے سوال کیا ’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو کیوں روکا گیا ہے؟‘‘ ڈرائیور شرمندہ لہجے میں منمنایا ’’غالباً رفتار کی وجہ سے‘‘۔ افسر نے کہا جی، اس سڑک پر حد رفتار 70 میل فی گھنٹہ ہے اورآپ 87میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہے تھے۔ (دل میں پھر خواہش سی کوندی کہ افسر کی ٹھوڑی پر ہاتھ لگا کر معافی طلب کی جائے مگر حذر کیا گیا) پولیس افسر نے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے deer کیا ہوتا ہے، جی چاہا کے اسے کہیں’’یس مائی dear‘‘ لیکن فقط ’’یس سر‘‘کہنے پر اکتفا کیا۔ پھر افسر صاحب کچھ یوں گویا ہوئے ’’اس علاقے میں ہرن بہت ہیں، اگر وہ آپ کی تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا جائیں گے تو آپ کی اور آپ کے خاندان کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی، جو انڈیانا پولیس کو قطعاً قبول نہیں۔‘‘ آخر پولیس افسر نے اعلان کیا کہ آپ کو وارننگ دےکر چھوڑا جا رہا ہے، پھر جی میں آیا کہ اسے کہیں کہ’’یور چلڈرن مے لِو لونگ‘‘، لیکن ہم نے فقط شکریہ ادا کیا اور چل دیئے۔

تو بات ہو رہی تھی امریکی شاہ راہوں کے جال کی جن کے پیچاک اور بنت آج بھی ہمیں فیسی نیٹ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ کی سب سڑکوں سے سارے سنگ میل اتار لئے جائیں تو اکثر امریکی اپنے گھر نہیں پہنچ پائیں گے، راہ گم کر بیٹھیں گے، کھو جائیں گے، کوئی راستہ نہیں پہچان پائے گا، کوئی منزل پر نہیں پہنچ پائے گا۔ ایمان داری سے بتائیں کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم پاکستانیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے، ہماری قومی زندگی کی شاہراہ سے سب نشان منزل ہٹا دیے گئے ہیں، سب سنگِ میل چھپا لئے گئے ہیں، سب نقش مٹا دیے گئے ہیں، یعنی بہ قول شاعر’’حیرت زدہ کھڑے ہیں کہ جانا کدھر کو ہے....وہ نقشِ پائے یار تو برسات لے گئی۔‘‘ بھٹکے ہوئے لوگوں کا انبوہ ہے جوایک دوسرے سے گم شدہ منزل کا پتا پوچھتا رہتا ہے۔ قومی زندگی کی موٹر وے کے سب اصول، قواعد، سب سنگِ میل، ساری ہدایات ملکی آئین میں درج ہوتی ہیں۔ آئین میں کچھ سبز بتیاں ہوتی ہیں، کچھ سرخ قمقمے ہوتے ہیں، آئین میں لینز بنی ہوتی ہیں جس کی پابندی سب کو کرنا ہوتی ہے۔ منزل تک پہنچنے کا راستہ آئین میں وضاحت سے لکھا ہوتا ہے، سنگِ میل ہوتے ہیں، ون ویز ہوتے ہیں، اسٹاپ سائین ہوتے ہیں، حد رفتار ہوتی ہے، یعنی سب کچھ ہوتا ہے۔ اور یہ اصول مستقل ہوتے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ رات کو رائٹ ہینڈ ڈرائیو کا اصول ہو اور صبح اٹھ کر لیفٹ ہینڈ ڈرائیو شروع کر دی جائے، یہ تو حادثے کا نسخہ ہے، کبھی پارلیمانی جمہوریت کے گیت گائیں، اور کبھی صدارتی نظام کا علم بلند کر دیں، اور ہر نگراں حکومت کے آتے ہوئے ٹیکنوکریٹس کی طویل المیعاد حکومت کی سرگوشیاں بھی سنائی دیتی رہیں، اور اس سب کے باوجود ہم منزل پر بھی پہنچ جائیں۔ دوستو، ایسا نہیں ہوتا۔

تازہ ترین