بیسویں صدی کے نصفِ اول میں ہندوستان کی سیاست میں جس مسلمان رہنما کا کردار سب سے کلیدی اہمیت کا حامل قرار پایا وہ بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ انگریزی استعمار کے زیرِ اثر متحدہ ہندوستان میں مذکورہ برسوں میں چند سوالات اُس عہد کی سیاست کے مرکزی عنوان بنے ہوئے تھے۔ ایک موضوع یہ تھا کہ استعمار کے زیرِ اثر ہندوستان کے متنوع ثقافتی معاشرے کے اندر مختلف ثقافتی گروہوں کو سیاسی اور انتظامی اداروں میں نمائندگی کن اصولوں کی بنیاد پر دی جانی چاہیے۔اسی سے متعلق ایک سوال یہ تھا کہ خود انگریزحکومت کے حوالے سے ہندوستان کی سیاسی قیادت کا رجحان کیا ہو ؟
کیا مکمل آزادی کی سمت میں پیش رفت کی جائے یا مرحلے وار اصلاحات کے ذریعے مقامی آبادیوں کی نمائندگی اور ان کی سماجی و معاشرتی ترقی کے لیے کوشش کی جائے ؟صدی کے ابتدائی دو ڈھائی عشرے آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس جو ہندوستان کی سرکردہ سیاسی جماعتوں میں سرفہرست تھیں ،ہندوستان کومرحلے وار اصلاحات سے ہمکنار کرنے کے نظریے پر عمل پیرا تھیں۔اسی زمانے میں ہندوستان کی چند انقلابی جماعتیں ملک سے انگریزی تسلط کے مکمل خاتمے کے لیے کوشاں تھیں۔
مولانا حسرت موہانی جیسے چند ایک رہنما بھی ہندوستان کی سیاست میں اپنے ’آزادی کامل‘کے موقف کے ساتھ متحرک اور فعال تھے۔ 1930ء کے آس پاس بڑی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارموں سے بھی بتدریج خودمختاری کے مقابلے میں مکمل آزادی کی باتیں کی جانے لگیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے وقت جب خود برطانیہ کی حکومت کی طرف سے اس قسم کے اشارے کیے جانے لگے کہ جنگ کے بعد وہ ہندوستان کی ’ذمہ داریوں ‘سے خود کو سبکدوش کرلے گی تو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے ’برطانیہ کے بغیرہندوستان‘کے تناظر میں اپنی حکمت عملی طے کرنی شروع کی،جوں جوں جنگ کا خاتمہ قریب آتا گیا ہندوستان کی داخلی سیاست میں تیزی بھی آتی گئی۔ اس پورے عرصے میں ہندوستان کا بنیادی سیاسی مسئلہ تھا کیا؟بیسویں صدی کے اوائل تک ہندوستان کی نوآبادی پر انگریز کا تسلط مکمل طور پر قائم ہوچکا تھا۔
انگریزحکومت نے جہاں اپنی استعماری حکمت عملی کے پیش نظر ہندوستان کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے میں نوعی تبدیلیاں پیدا کیں اور یہاں مقامی شراکت داروں کا ایک طبقہ پیدا کیا،وہیں ہندوستان جیسے وسیع و عریض خطے پر اپنے کنٹرول کو مؤثر بنانے کے لیے ملک گیر سطح پر ایسے ادارے بنائے جن میں مقامی لوگوں کو انتظامی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
ہندوستان میں ان بنیادی اقتصادی و سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں یہاں کے متنوع ثقافتی معاشرے میں سیاسی مفادات کی ایک نئی بساط بچھ گئی اور مختلف گروہوں اور اُن کے لیڈروں نے نئے نظام کا حصہ بننے کے لیے اپنی ثقافتی شناختوں کو سیاسی جمعیت سازی کے لیے استعمال کرنا شرو ع کیا، یہی نہیں بلکہ ہندو اور مسلم سیاسی حلقے بننا شروع ہوئے تو یہ حقیقت بھی نمایاں ہوکر سیاست کا موضوع بنی کہ دونوں میں سے ایک کمیونٹی بڑی اکثریت کی حامل ہے، جبکہ دوسری کی حیثیت ایک اقلیت کی ہے۔
اکثریت اور اقلیت کی یہ حقیقیت اُس وقت تک بہت زیادہ سیاسی معنویت کی حامل نہیں تھی جب تک کہ نئے طرز کے ادارے وجود میں نہیں آئے تھے ،اورجب وجود میں آنا شروع ہوئے تو ثقافتی اور مذہبی تقسیم ،سیاسی تقسیم کی اساس بننا شروع ہوئی۔ہندوستان میں اکثریت اور اقلیت کا یہ مسئلہ بنیادی طور پر مذہبی مسئلہ نہیں تھا بلکہ سیاسی مسئلہ تھا اور کسی بھی معاشرے میں اس طرح کا مسئلہ کبھی بھی ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔اس سلسلے میں صائب اور مدبرانہ طریقہ یہی ہوتا ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے۔
دنیا میں بیسیوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن میں ثقافتوں کے تناظر میں اجاگر ہونے والے سیاسی تنازعات کو سیاسی ذریعوں سے حل کرنے کی کامیاب کوششیں کی گئیں۔جدید ریاستیں ، خاص طور سے وہ جنہوں نے سعی اور خطا (Trial and Error) کے طویل مرحلوں سے گزر کر استحکام حاصل کیااور قوم سازی میں کامیاب رہیں ۔انہوں نے مسائل کو محض ثقافتی اور مذہبی مسائل کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ ان کی سیاسی تشکیل آوری کو توجہ کا مرکز بنا کر ان کا حل تلاش کیا۔ ہندوستان میں یہی آزمائش درپیش تھی اور اسی آزمائش کے تناظر میں قائداعظم محمد علی جناح کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قائداعظم ایک تعلیم یافتہ ،مغربی لبرل سیاسی رجحانات سے متاثر ہونے والے اور ایک قانونی ذہن رکھنے والے رہنما تھے۔ انہوں نے برطانیہ کے پارلیمانی سیاسی نظام کو بہت قریب سے دیکھا۔ قائداعظم اُس وقت کے سب سے نمایاں لبرل سیاسی مدبرین دادا بھائی نوروجی ، فیروز شاہ مہتہ،جی کے گوکھلے،جن کا تعلق ہندوستان سے تھا،برطانیہ کے گلیڈسٹن اور جان مارلے سے متاثر رہے، جن کے زیر اثر ان کو اس حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملی کہ ایک وسیع شراکت پر مشتمل جمہوریت ،متنوع نسلی و لسانی گروہوں کو ایک نظام میں جوڑنے کے لیے وضع کردہ وفاقی طرز کا نظم ،اور ایک غیر فرقہ ورانہ ریاست ہی ایک متحدہ قوم کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے۔
قائداعظم کے نزدیک یہ قوم سازی ہی ان کے لیے اُن کی ساری زندگی ان کی جدوجہدکا مرکزی نقطہ بنی رہی۔ متحدہ ہندوستان میں بھی وہ برسہا برس اسی چیز کے لیے کوشاں رہے کہ ہندوستان میں اکثریت اور اقلیت کے مسئلے کو کس طرح حل کرکے یہاں ایک قوم کا وجود یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ جب ان کی یہ کاوشیں کانگریس اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کی ،سیاسی امور کو سیاسی طریقوں سے حل نہ کرنے کی روش کے نتیجے میں ناکام ہوتی نظر آئیں،تو قائداعظم نے ہندو مسلم سیاسی اختلاف کو اکثریت اور اقلیت کے بجائے قومی تقسیم کے طور پر حل کروانے کی کوشش کی لیکن ایسا کرتے وقت انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کا مسئلہ ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی یعنی کثیر القومی مسئلہ ہے۔
23مارچ 1940 ء کو لاہور میں جو قرار داد پیش کی گئی اس میں انہوں نے مسلمانوں کا مقدمہ ایک قوم کے طور پر پیش کیا لیکن اس سے ایک روز قبل مسلم لیگ ہی کے اجلاس میں وہ آئندہ روز پیش ہونے والی قرارداد کا پورا پس منظر ایک تفصیلی تقریر کی صورت میں پیش کرچکے تھے ۔ان کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ اب ہم 1935ء کے ایکٹ میں بہتری پیدا کرکے اس کو قابل قبول بنوانے کی اپنی سابقہ پالیسی کو ترک کررہے ہیں۔ ہم ہندوستان میں کسی وفاقی حل کے بھی اب خواستگار نہیں ہیں ،بلکہ ہم اس سے آگے جاکر ایک حل تجویز کررہے ہیں۔ قرارداد میں جو حل پیش کیا گیا وہ عملاً ایک کنفیڈریشن کا نقشہ تھا۔
جدید قومی ریاستوں کے تجربات سے اکتساب پر مبنی قائداعظم کا تصور قوم اکثریت اور اقلیت کی تقسیم کے مسئلے کو حل کیے بغیر روبہ کار نہیں آسکتا تھا۔ قائداعظم کا پورا سیاسی کیریئر اس مسئلے کو حل کرنے کی تگ و دو پر مشتمل رہا۔ تقسیم ہند سے قبل اُن کا موقف تین مرحلوں یا تین ادوار پر مشتمل نظر آتا ہے۔ قیام پاکستان پر ایک چوتھا موڑ سامنے آیا، انہوں نے اس موقف کو ایک اور پس منظر میں ایک اور انداز میں پیش کیا،ظاہر بیں نظروں کو یہ موقف ایک دوسرے سے مختلف نظر آئیں گے مگر بغور دیکھیں تو ان میں ایک فکری وحدت کو دیکھنا اور مختلف اوقات میں اُن کے پیش کردہ دلائل میں پوشیدہ بنیادی مقصد کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
ان چاروں ادوار میں قائداعظم کا اصل مدعا اکثریت اور اقلیت کی تقسیم جس کے لیے وہ ’نوکیلے پن ‘یا’تیکھے پن‘ (Angularity)کا لفظ استعمال کرتے رہے، کے مسئلے کو حل کرنااور کروانا تھا۔ برصغیر کے، بیسویں صدی کے ابتدائی نصف کے سلسلہ واقعات میں پہلا مرحلہ وہ تھا جب قائداعظم اقلیت اور اکثریت کی تقسیم کے اس درجہ خلاف تھے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہندوستان کے مسلمان عددی طور پر ہندوؤں سے کم ہیں، انہوں نے اُن کے لیے کسی رعایت کی حمایت نہیں کی۔
جب آئندہ برسوں میں یہ واضح ہوا کہ یوں تو مسلمان بالکل ہی نظر انداز کردیے جائیں گے تو دوسرے مرحلے میں انہوں نے مسلمانوں کو ایک اقلیت گردانتے ہوئے اُن کے لیے آئینی اورقانونی تحفظات کی بات کی، جب اس سلسلے میں بھی انہیں کامیابی نہیں ہوئی تو انہوں نے تیسرے مرحلے میں مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم قراردیا مگر یہاں بھی دو چیزوں کو پیش نظر رکھا۔
ایک تو’گاندھی جناح مراسلت‘میں واضح کر دیا کہ مسلمان قوم سے مراد ہندوستانی مسلمانوں پر مشتمل قوم ہے، دوسرے یہ کہ دوقومی نظریے کا لازماً مقصد ہندوستان کی مکمل اور حتمی تقسیم نہیں ہے۔ 1940ء کی قرارداد لاہور میں انہوں نے ہندوستان کے مستقبل کے لیے جو خاکہ اور تجویز پیش کی وہ ایک کنفیڈریشن کے نقشے پر مشتمل تھی۔
قیام پاکستان پر انہوں نے یہ واضح کیا کہ اقلیت اور اکثریت کے مسئلے کو ایک متحدہ نظام میں حل نہ کرنے کے نتیجے میں اور اس ضمن میں اس کی جملہ تجاویز کو رد کردینے کے بعد ملک کی تقسیم عمل میں آئی، سو اب جبکہ پاکستان کے نام سے ہمارا لگ وجود میں آچکا ہے تو ہمیں اس ملک میں قوم سازی اسی اصول پر کرنی چاہیے کہ اقلیت اور اکثریت کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کردیں ۔انہوں نے 11اگست1947ء کی اپنی تقریر میں جو نقشۂ کار اور تصورپیش کیا،وہ ایک فلاحی مملکت ، ایک جدید جمہوری اور سب کو اپنے دامن میں سمیٹنے والی (Inclusive)ریاست کا تصور تھا۔یہاں بے جا نہ ہوگا اگر قائداعظم کے چاروں ادوار کے دلائل کا مختصر جائزہ لے لیا جائے۔
۱۔پہلا دور: مسلمانوں کے لیے کسی خصوصی رعایت کی مخالفت
بیسویں صدی کے اوائل میں جب قائداعظم نے ہندوستان کی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی،بعد ازاں 1906ء میں جب مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور اس نے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا تو اس مرحلے میں قائداعظم مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اگرایک اقلیت کے لیے بربنائے اقلیت رعایت حاصل کرلی جائے گی تووہ مستقل طور پر اقلیت بن جائے گی، اور یوں ایک آبادی جس کو ایک قوم بننا مطلوب ہووہ اقلیت اور اکثریت میں تقسیم رہے گی۔
1906ء میں کانگریس کے اجلاس میں سرکاری قرارداد میں انہوں نے ایک ترمیم پیش کی جس کا مقصدقرارداد کی اُس شق کو حذف کرانا تھا جس میں پسماندہ طبقات(جن میں مسلمان بھی شامل ہوسکتے تھے)کے لیے قانون ساز اداروں اور ملازمتوں میں نشستیں مختص کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ ’’مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی اصول برتنا چاہیے جو ہندوئوں کے لیے برتنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے‘‘۔
1909ء میں ،منٹو مارلے اصلاحات کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کو منظور کرلیا گیا، ظاہر ہے یہ قائداعظم کی اُس وقت کی سوچ سے مختلف اقدام تھا۔1913ء میں جب حکومت نے خودمختار اداروں میں مذہبی یا فرقہ ورانہ (Communal) بنیاد پرنمائندگی دینے کا فیصلہ کیا تو قائداعظم نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ قائداعظم اداروں میں مذہبی اختلافات کے سرایت کرنے کے امکان کے سخت خلاف تھے۔
ایک موقعے پر انہوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا :’’یہ کالج مذہبی مسلک پر یقین نہیں رکھتا۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی نجات غیر فرقہ ورانہ فکرواحساس سے ہی ممکن ہے‘‘۔1905ء میں جب تقسیم بنگال کا فیصلہ ہوا تو قائداعظم نے اسے ناپسند کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ اقدام خطے کے عوام کو تقسیم کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔
1913ء میں جب قائداعظم نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو یہ بات بھی واضح کردی کہ وہ کانگریس کی اپنی رکنیت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ اگلے سات سال وہ مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کے رکن رہے اس عرصے میں انہوں نے دونوں جماعتوں کو قریب لانے اور ہندو مسلم سیاسی مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کابڑا قابل ذکر اور قابل عمل نتیجہ ’’لکھنو پیکٹ‘‘ کی صورت میں نکلا۔ بعدازاں ہندوستان کے جذبات انگیز سیاسی حالات اور کانگریس کے ایک مرتبہ پھر اپنی غیر مفاہمانہ روش کی طرف پلٹ جانے کے نتیجے میں لکھنو پیکٹ عملی شکل اختیار نہیں کرسکا۔
۲۔ دوسرا دور: مسلم اقلیت کے لیے تحفظات کی وکالت
اس دور میں جبکہ یہ واضح ہونا شروع ہوچکا تھاکہ ہندو اور مسلم تقسیم بہرحال ایک سیاسی تقسیم کی شکل اختیار کرنا شروع کرچکی ہے ،قائداعظم نے مسلم اقلیت کے لیے آئینی اور سیاسی تحفظات حاصل کرنے کو اپنا مطمع نظر بنایا۔اس سلسلے میں لکھنو پیکٹ میں جس قسم کی سوچ کا اظہار شروع ہوا تھا وہ اپنے طور پر اُس کو آگے بڑھانے پر مائل رہے۔ بعد ازاں جب قانونِ ہند مجریہ 1919ء متعارف ہوا اور صوبوں نے ایک قابل ذکر سیاسی و انتظامی وحدت کی شکل اختیار کی تو قائداعظم نے نئے حالات میں مسلم اقلیت کی ہندوستان کے مجموعی دروبست میں بہتر اور نمایاں حیثیت کو یقینی بنوانے کے لیے نئی تجاویز پیش کرنا شروع کیں۔
1927ء میں دہلی مسلم سفارشات کے مرحلے پر قائداعظم ایک مرتبہ پھر مفاہمت کے نئے فارمولوں کے ساتھ سامنے آئے، اب انہوں نے مسلمانوں کے لیے نہ صرف مسلم اکثریتی صوبوں کی تعداد میں اضافے کی بات کی بلکہ مرکز میں اُن کو ایک تہائی نشستیں دینے کا مطالبہ کیا،ان کی منظوری کی صورت میں اُس جداگانہ انتخاب سے دست بردار ہونے کی پیشکش بھی کردی جس کو انگریز تسلیم کرچکا تھا، مگر جو کانگریس کے لیے مستقل پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی۔1934 ء میں مرزا راشد علی نے اپنی کتاب 'In different Saddles' میں قائداعظم سے منسوب ایک بیان درج کیا ہے جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ:
’’ہندو اور مسلمان ایک جسم کے دو بازو ہیں مگر ایسا جسم کس کام کاجس کا ایک بازو فالج زدہ ہو۔ مفلوج شدہ ہاتھ کو مضبوط کرکے آپ جسم کو مضبوط کرسکتے ہیں مگر ہندو مسلم اتحاد اُس وقت تک قائم نہیں کرسکتے جب تک مسلمان سماجی، تعلیمی اور سیاسی طور پر اپنی موجودہ پسماند ہ صورت حال سے دوچار ہیں‘‘۔
۳۔تیسرا دور: مطالبۂ پاکستان کا مرحلہ
قائداعظم کی طرف سے اسی قسم کے دلائل اور سفارشات آئندہ برسوں میں بھی پیش کی جاتی رہیں لیکن مسلم اقلیت کے لیے کسی بھی بہتر اور تحفظات فراہم کرنے والے فارمولے کو قبول نہ کرنے کی کانگریس کی روش بالآخر اُس مقام تک پہنچی جہاں قائداعظم کو 1940ء کی قراردادمیں پیش کردہ موقف کو اختیار کرنا پڑا۔
لاہور کی قرارداد کو کانگریس نواز پریس نے ازراہِ طنز قرارداد پاکستان کا نام دیا مگر پھر یہی نام مسلم لیگ نے بھی قبول کرلیاگوکہ ابھی پاکستان کا حدودِ اربعہ اور اس تک پہنچنے کا سیاسی نقشہ وجود میں نہیں آیا تھا۔یہ دونوں چیزیں تدریج کے ساتھ آئندہ برسوں میں واضح ہوئیں۔
مطالبۂ پاکستان کے منظر عام پر آنے کے بعد کے برسوں میں قائداعظم نے بارہا اس امر کی وضاحت کی کہ ان کے نزدیک مسلمانوں اور ہندوئوں کا دو قومی وجود کسی مذہبی عصبیت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سیاسی طرز فکرکا حاصل ہے۔ انہوں نے مخالفین کی طرف سے پھیلائے جانے والے ان تمام الزامات کو رد کیا جو وہ قائداعظم کے تصور پاکستان کے حوالے سے عائد کررہے تھے ۔ 2 نومبر 1941ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یونین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس مخالفانہ پروپیگنڈے پر سخت تنقید کی ،جس میں یہ کہا جارہا تھا کہ مجوز ہ مملکت پاکستان میں اقلیتیں امورِ مملکت سے باہر رکھی جائیں گی۔ انہوں نے ایک پرانے کانگریسی لیڈر مسٹر منشی کے الزامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ افتراسازی کررہے ہیں کہ :
’’پاکستان میں ریاست ایک ایسی سول حکومت کی حامل نہیں ہوگی جو تمام کمیونٹیز کی نمائندہ مقننہ کے سامنے جوابدہ ہو، بلکہ یہ ایک مذہبی ریاست ہوگی جو اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ جو اس مذہب کے پیروکار نہیں ہوں گے ، حکومت میں حصے کے حق دار نہیں ہوسکیں گے‘‘۔
قائداعظم نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا :
’’کیا یہ ہندوئوں اور سکھوں کو بہکانے کی کوشش نہیں ہے، ان کو یہ بتایا جانا کہ یہ (پاکستان)ایک مذہبی ریاست ہوگی جس میں انہیں حکومت و اقتدار سے الگ رکھا جائے گا، کھلا جھوٹ ہے۔۔۔ وہ (ہندو اور سکھ)ہمارے بھائیوں کی طرح ہیں اور وہ ریاست کے شہری بن کر رہیں گے‘‘۔
7مارچ 1947ء کو انہوں نے میمن چیمبر سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے :
’’ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں عظیم ہندو کمیونٹی اور اُس سب کا جس کی کہ وہ علمبردار ہے ،احترام کرتا ہوں۔اُن کا اپنا عقیدہ ہے ،اپنا فلسفہ ہے ،اپنا عظیم کلچر ہے۔ ایسا ہی مسلمانوں کا بھی ہے،لیکن دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔۔۔ میں پاکستان کے لیے لڑ رہا ہوں کیونکہ یہ مسئلے کا واحد حل ہے ۔اور دوسرا (حل،یعنی )متحدہ ہندوستان کا آئیڈیل اور پارلیمانی طرز حکومت پر استوار حکمرانی ایک لاحاصل خواب اور ناممکن بات ہے ‘‘۔
قائداعظم کے یہ سب بیانات یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اولاً ، قائداعظم کے لیے ہندو مسلم تقسیم جس نے ایک سیاسی شکل اختیار کرلی تھی ، سیاسی اور آئینی طریقے ہی سے حل کی جانی چاہیے تھی۔دوئم یہ کہ قیام پاکستان سے قبل وہ بڑی صراحت کے ساتھ یہ بات بتا چکے تھے کہ جس مملکت کے لیے اب وہ کوشاں ہیں وہ کسی اقلیت اور اکثریت کی مستقل تقسیم کے ساتھ قائم نہیں ہوگی۔
۴۔چوتھا دور: پاکستان میں قوم سازی اور اقلیت و اکثریت کے مسئلے کے حل کے لیے قائداعظم کاوژن
متحدہ ہندوستان کے فریم ورک میں ہندومسلم تقسیم کے سیاسی مسئلے کو آئینی اور سیاسی طریقوں سے حل نہ کرپانے کے نتیجے میں جب بالآخر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا توقائداعظم کے لیے نئی مملکت کے تناظر میں ازسرنو قوم سازی کے اپنے موقف کے اعادے کی ضرورت پیش آئی۔ 11 اگست 1947ء کی تقریر،قائداعظم کی پوری سیاسی جدوجہد کا خلاصہ پیش کرتی ہے۔
اس تقریر کے دو بنیادی حصے ہیں، ایک حصہ تو مستقبل کی نقشہ گری کا جبکہ دوسرا حصہ جوتقریر میں پہلے قائداعظم کا موضوع بنا وہ تھا ہی اس حوالے سے کہ آخر ہندوستان میں ہوا کیا کہ تقسیم کی نوبت آئی؟ یہاں انہوں نے کھل کر بیان کیا کہ ہندوستان میں اصل مسئلہ ایک اقلیت اور اکثریت کو ایک مشترکہ نظام کے اندر سمونے کا تھا جس کے لیے اکثریت کو اس امر کو تسلیم کرناچاہیے تھا کہ اقلیت کو محض اس کی عددی کمتری کی بنیاد پر ریاست کے امور میں کسی ثانوی درجے پر فائز نہ کردیا جائے۔
قائداعظم نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں پُر زور الفاظ میں اپنا وژن پیش کرتے ہوئے کہاکہ اکثریت اور اقلیت کا نزع یا تیکھا پن(Angularity)اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب ریاست سب شہریوں کو ایک نظر سے دیکھے اور خود معاشرے کی مذہبی ثقافتی تقسیم میں کسی ایک فریق کی نمائندہ نہ بن جائے بلکہ دونوں فریقوں کو ان کے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کی پوری آزادی اور سہولت فراہم کرے۔ریاست کی غیر جانبداری کا یہ تصور ایک جدید ریاست کا تصور ہے ۔اسی تصور کا اعادہ کرکے پاکستان ایک مستحکم ملک بن سکتا تھا ۔قائداعظم نے اپنی مذکورہ تقریر میں کس قدر کھل کر یہ بات کہی کہ :
’’ہمیں اس جذبے کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثریت اور اقلیت،ہندوفرقے اور مسلمان فرقے کے چند درچند زاویے معدوم ہوجائیں گے۔اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
بانیِ پاکستان کا وژن ایسی پاکستانی قوم کی تشکیل تھا ،جس میں مذہبی تنوّع کے حامل شہری ثقافتی سطح پر اپنی مذہبی شناخت رکھنے کے ساتھ ریاست کے شہری کی حیثیت سے برابری کے حق دار تھے۔
کیا یہی وژن ماضی میں بھی قائداعظم پیش نہیں کرتے رہے تھے؟قیام پاکستان سے قبل کے چار عشروں میں وہ اسی وژن کے لیے کام کرتے رہے لیکن جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ ظاہر بیں نظریں ان کے ماضی اور بعد کے موقف میں تضاد دیکھنے پر کمر بستہ رہتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جب اسٹینلے وولپرٹ جیسا بڑا تاریخ نویس بھی قائداعظم کی 11اگست کی تقریر کی تفسیر پیش کرتے ہوئے حیرت اور کسی قدر طنز کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جناح قیام پاکستان پر اپنے مخالفین کی زبان کیسے بولنے لگے۔
جیسا کہ اس مضمون میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ قائداعظم کا قوم سازی کا تصور جو کثرت میں وحدت کی تلاش اورثقافتی تنوعات کواُن کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پراُن کی مشترکہ اور منصفانہ تجسیم کا تصور تھا،قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے لیے بھی یہ ان کا سوچا سمجھا تصور تھا۔
قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے ہم نے اس تصور سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی ،نتیجتاً آج معاشرہ بھی منقسم ہے، مذہبی انتہا پسندیاں معاشرے کے امن کو تاراج کررہی ہیں،اقلیتیں دَم سادھے پڑی ہیں، شہری ٹُک ٹُک دیدم ،دَم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں، ریاست ان خیالوں میں ہے کہ جو کچھ تقسیم در تقسیم وہ کرتی رہی شاید اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے،سو وہ اس کمی کو پورا کرنے میں لگی ہے۔