• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جولائی 2023میں منظر عام پر آنے والے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے منشیات اور جنسی حراسگی کے سکینڈل نے سوشل میڈیا کی بدولت قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا۔ اس سکینڈل کے پیچھے اصل حقائق کی تلاش کئی وجوہات کی بنا پر انتہائی ضروری ہے۔ ایک طرف تو یہ قانونی اور منطقی مطالبہ ہے کہ اگر یہ سکینڈل واقعی ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر بنا ہے تو اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ مستقبل کے لئے ایسے گھناؤنے کاموں کی بیخ کنی کی جائے۔ دوسری طرف انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اگر یہ سکینڈل بے بنیاد اور من گھڑت ثابت ہوتا ہے تو پھر اس کے پس پشت سازشی عناصر تک پہنچنا اور ان کے مکروہ عزائم سے پردہ اٹھانا بھی شدید ضروری ہے۔

اسکینڈل کا بیانیہ یہ تھا کہ ڈی پی او بہاولپور کی زیر قیادت کارروائی سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکورٹی افسر سے منشیات برآمد ہوئی ہیں اور اس کے فون سے یونیورسٹی طالبات کی نازیبا ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور پروفیسر کو بھی منشیات کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے تاثر پھیلایا گیا کہ بظاہر یہ واقعات دکھاتے ہیں کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بڑے پیمانے پر منشیات کا استعمال ہو رہا ہے اور طالبات کی جنسی حراسگی ہو رہی ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے شروع ہی سے سازش کی بو سونگھ کر اس کا تمام حکام سے اظہار کیا لیکن ساتھ ساتھ انتظامی ذمہ داری ، قانون کی بالا دستی اور شفافیت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی آزادانہ تحقیقات اور اپنے بھرپور تعاون کا تحریری اور عملی مظاہرہ بھی کیا۔ اس حوالے سے ریٹائرڈ میجر اعجاز شاہ کی گرفتاری کے فورا بعد وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے آئی جی پنجاب کو مراسلہ لکھ کر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ وائس چانسلر نے رضاکارانہ طور پر خود سمیت یونیورسٹی کے تمام عملہ کے خون کا ٹیسٹ کرانے کا بھی اعلان کیا۔

اب ہم منطق اور حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ایسا اسکینڈل کیوں نہیں ہو سکتا تھا۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب جیسے روایتی اور قدامت پسند آبادی والے خطے میں یونیورسٹی آنے والی طالبات کے والدین تعلیمی ادارے کے ماحول کے بارے میں اپنے طور پر بہت ہی حساس ہوتے ہیں۔ یہ والدین انتہائی تحقیق اور تفتیش کرنے کے بعد ہی اپنی بیٹیوں کو ادارے میں داخل کراتے ہیں۔ ایسے میں ادارے کا اخلاقی طور پر ناقابل قبول اعمال کا گڑھ بننا ناممکن ہے۔

گزشتہ چار سالوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایک طرف تو طلباء کی کل تعداد 13ہزارسے بڑھ کر 65ہزارہو گئی تو دوسری طرف اس تاریخی جامعہ میں طالبات کی تعداد4ہزار یعنی کل تعداد کا 30 فیصد سے بڑھ کر 27ہزاریعنی کل تعداد کا 42 فیصد ہو گئی۔ یہ عظیم اضافہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جولائی 2019 میں تبدیلی کے بعد شروع ہوا۔ اس اضافہ کے عوامل میں سب سے بنیادی طور پر بہاولپور اور جنوبی پنجاب میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے شدت سے خواہشمند کثیر تعداد میں نوجوان آبادی کا ہونا ہے تو اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹ کی سہولیات کو بڑھانا ، بڑی مانگ والے ڈگری پروگرامز کی تعداد میں اضافہ کرنا ، متعدد شفٹوں میں کلاسیں کرانا ، اعلیٰ تعلیم کے لئے قابل اساتذہ بھرتی کرنا ، کیمپس پر تعلیم کے لئے سہولیات بڑھانا، طلباء کے لئے وظائف مہیا کرنا اور کھیلوں اور دیگر مثبت غیر نصابی سرگرمیوں کا انتہائی بڑے پیمانے پر انعقاد کرانا وہ اجزائے ترکیبی ہیں جنہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو 65ہزار اسٹوڈنٹس کی تعداد تک پہنچایا اور یہ پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ بن گئی۔

یونیورسٹی کی اس ریکارڈ ترقی میں کل وقتی اساتذہ کی تعداد کا 400سے بڑھ کر 1400ہو جانا اور ادارے کے بجٹ کابڑھ جانا یعنی چار سالوں میں تقریبا 500 فیصد کی ترقی شامل ہیں۔

کیا ایک ایسے ادارے میں بیک وقت بے پناہ اور انتہائی انقلابی اور اچھے اقدامات کے ساتھ ساتھ کیا کوئی جنسی حراسگی اور منشیات کے خوفناک عفریت بھی پل رہےتھے۔ کیا جہاں مین کیمپس میں دن بھر پچاس ہزار سے زائد طالب علم اور پانچ ہزار سے زائد ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ ملازمین اور ہزاروں مہمان بھی آتے جاتے رہتے ہوں ، جہاں ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے حوالے سے نہ صرف یونیورسٹی کے ادارہ جاتی نظام کے ذریعے ہر قسم کی شکایات درج ہوتی ہوں اور مسائل سامنے بھی آتے رہتے ہوں اور حل ہوتے رہتے ہوں ، جہاں ادارے سے باہر شکایات کے متعدد نظام بھی موجود ہوں کہیں بھی کوئی جنسی حراسگی اور منشیات کے حوالے سے کوئی بھی نہ تو شکایت کنندہ ہے اور نہ ہی کوئی شکایت۔ ایسے میں کیا یہ ممکن ہے کہ جنسی حراسگی اور منشیات جیسے عفریت سب کی آنکھوں سے اوجھل رہے۔

اب آتے ہیں ان حالات و واقعات کی طرف جنہوں نے اس مصنوعی یا خودساختہ اسکینڈل کو بنایا۔جن واقعات نے اس اسکینڈل کو جنم دیا وہ 27 جون 2023 سے 23 جولائی 2023 کی ایک ماہ کی درمیانی مدت میں پیش آئے۔ ان واقعات میں دو الگ یونیورسٹی ملازمین کو ایک مہینے کے وقفہ سے ایک جیسے حالات میں پولیس کے ناکے پر روک کر چھ گرام اور آٹھ گرام کی مشکوک اور کمزور ایف آئی آر درج کرنا ہے۔ پہلے واقعے کے وقت سے ہی یونیورسٹی انتظامیہ نے سازش کی نشاندہی کر دی تھی اور ایف آئی آر اور اس سے منسلک پولیس کے بیانیے کو مشکوک قرار دے دیا تھا۔(جاری ہے)

تازہ ترین