بالآخر وہی ہوا، جس کی توقع کی جا رہی تھی ۔ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 3سال قید کی سزا ہو چکی ہے اور انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا ہے ۔ اس طرح پاکستان کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت کے مقبول رہنما اور سابق منتخب وزیر اعظم عدالت کی طرف سے مجرم قرار پائے ہیں ۔ اس کی وجہ سے وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج اسلام آبادد ہمایوں دلاور کی طرف سے سنائے گئے اس فیصلے کے بعد پاکستان کا آئندہ کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا اور خود عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے اس امر کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ عمران خان کی سزا اور گرفتاری سے دنیا بھر میں یہ تاثر مضبوط ہو گیا ہے کہ پاکستان میں تمام سیاست دان کرپٹ ، چور اور نااہل ہیں اور پاکستان میں جمہوریت اور سیاست کا مستقبل اچھا نہیں ہے ۔ یہ تاثر قیام پاکستان کے فورا بعد سے ہی سیاست دانوں اور سیاسی قوتوں کے بارے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیا گیا ، جسے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ درست ثابت کرنے کے لئے ہماری 75سالہ تاریخ میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ لوگ یقین کر لیں ۔ یہ حالات پیدا کرنے کے لئے سیاست دان بھی خود آلہ کار بنے ۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ جب چار عشرے قبل میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو چور اور کرپٹ کہنا شروع کیا تھا تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی ہر پریس کانفرنس اور اپنے ہر بیان میں یہ کہتی تھیں کہ نواز شریف یہ راگ الاپنا بند کریں کیونکہ ملک اورسیاسی قوتوں کی بدنامی ہو رہی ہے ۔ اس سے غیر سیاسی قوتوں کو فائدہ اور پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد کو نقصان ہو رہا ہے ۔ اس وقت شہید بی بی کی اس بات پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی ۔ ان کے مخالفین نے ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنے کرپشن کیسز سے بچنے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ بات بہت دیر میں سمجھ آئی ، پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مکمل اور گہرا ادراک رکھنے والے ایک سیاسی اور جمہوری کارکن کی حیثیت سے مجھے عمران خان کی سزا اور گرفتاری پر دکھ ہوا ہے لیکن جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے اس نعرے کو عوامی سطح پر مقبول ترین نعرہ بنا دیا کہ سیاست دان چور ، کرپٹ ، لٹیرے ، ڈاکو ، قاتل اور جرائم پیشہ ہیں ۔ انہوں نے سیاست کو گالی بنا دیا ۔ انہوں نے غیر سیاسی سرپرستوں کے ذریعہ اپنے لئے سیاست کا میدان خالی کرایا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف طویل عرصے تک جلاو طن رہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو انہیں قتل کر دیا گیا ۔ بعد ازاں میاں محمد نواز شریف کو بطور وزیر اعظم پانامہ کیس کے متنازع ٖفیصلےسے نااہل کراکے وزیر اعظم ہاوس سے نکلوایا گیا ۔عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے مخالفین کو خوف ناک سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ۔ اقتدار بھی انہوں نے جن حربوں سے حاصل کیا ، اب سارے راز عوام کے سامنے آ چکے ہیں ۔ دوسروں کو چور چور کہنے والا اب عدالتی فیصلے سے چور ثابت ہو چکا ہے ۔ عدالت کی طرف سے ہی انہیں جاری کردہ صادق اور امین کی ڈکری ازخود غلط ثابت ہو چکی ہے ۔ جب ماضی میں مقبول سیاسی رہنماوں کو موت یا قید کی سزائیں ہوئیں تو پاکستان میں سیاست اتنی کمزور نہیں تھی ، جتنی خود عمران خان نے کر دی ہے ۔
ملک کی آئندہ کی سیاست کیا ہو گی ؟ اس سے پہلے یہ اندازہ لگانا ہو گا کہ عمران خان اور ان کی جماعت کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا ۔ اگرچہ توشہ خانہ کیس میں سزا کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق عمران خان کے پاس موجودہے اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سزا منسوخ ہو جائے لیکن منی لانڈرنگ کیس اور القادر ٹرسٹ کیس سمیت کئی دیگر کیسز کے فیصلوں کو بھی اب زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔ عمران خان کو دیگر کیسزا میں بھی سزا ہو سکتی ہے ۔ اب ان کی جان اتنی آسانی سے نہیں چھوٹے گی ۔ اب دنیا کی نظریں اس بات پر ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری پر سیاسی ردعمل کیا آتا ہے ۔ انہوں نے خود کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو 9 مئی والا ردعمل پھر آئے گا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انہیں جس سیاسی ردعمل کا زعم رہا ہے ، وہ نہیں آئے گا ۔ 10 اپریل 2022 ء سے 9 مئی 2023ءتک عمران خان نے اپنی سیاسی طاقت کے کئی مظاہرے کئے ، جو ناکام ہوئے ۔ 10 اپریل 2022ء کو اپنی حکومت جانے کے بعد انہوں ںے ملک بھر میں سیاسی مظاہرے کئے لیکن ان کے حق میں نہ بن سکے ۔ انہوں نے لانگ مارچ کیا ، جو بری طرح ناکام ہوا ۔ اس ناکامی کے جال سے نکلنے کے لئے انہوں نے اسمبلیوں سے استعفی دیا تو اس کے نتائج ان کے خلاف گئے ۔ 9 مئی کو طاقت کا مظاہرہ کیا تو حالات نے انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سائیڈ سے اٹھا کر دوسری سائیڈ پر پھینک دیا ۔ کچھ حلقے یہ کہتے ہیں کہ الیکشن میں عمران خان کی جماعت سوئیپ کر جائے گی اور حالات پلٹ جائیں گے ۔ یہ حلقے شاید پاکستان کی تاریخ اور سیاسی معروضیت کا ادراک نہیں رکھتے ۔ میرے خیال میں آئندہ الیکشن میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی وہ پوزیشن نہیں ہو گی ، جس کے بارے میں بعض لوگ خوش فہمی کا شکار ہیں۔
یہ بھی دیکھنا ہے کہ عام انتخابات کب ہوتے ہیں ؟ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس وقت سیاسی قوتیں بہت کمزور ہیں ، جس کے ذمہ دار عمران خان ہیں ۔ اب 2018 ء سے بھی زیادہ بدتر حالات ہیں ۔ انتخابات کب ہوں اور ان کے نتائج کیا ہوں گے ؟ اس کا فیصلہ سیاسی قوتوں یا سیاسی عمل کونہیں کرنا ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اس پر اثر انداز ہونے والی بیرونی قوتوں کو کرنا ہے ۔ بدلتے ہوئے علاقائی حالات میں بیرونی طاقتوں کی رسہ کشی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس اپنے مفادات کے مطابق کئی آپشنز ہیں ۔ وہ جو بھی آپشن اختیارے کرے ، پاکستان میں ایک مخلوط اور کمزور سیاسی حکومت نظر آ رہی ہے ۔ وہ بھی انتخابات ہونے کی صورت میں ۔ بہرحال ایک اور مقبول سیاسی لیڈر کے اس انجام پر دکھ ہے ۔ اگرچہ خود ان میں سیاسی ادراک ہے اور نہ ہی انہوں نے پاکستان کی تاریخ کو سمجھنے کی کبھی کوشش کی۔