پاکستان کے ایسے بُرے حالات پوری زندگی میں نہیں دیکھے۔ ہر طرف مایوسی ہے۔ لوگ بجلی ، گیس اور پٹرول کی بے لگام قیمتوں، بچوں کے تعلیمی اخراجات، روزمرہ زندگی کے معاملات چلانے سے بالکل قاصر ہونے کے باعث ذہنی انتشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ تشدد، شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔ رشتے کمزور پڑ رہے ہیں۔ آبادی کے ساتھ ساتھ طلاق کی شرح بھی بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف نفرتوں کا راج ہے۔ معاملاتِ زندگی سدھارنے کی کوئی تدبیر بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی ۔ ہمارا نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکا ہے وہ پاکستان کے بجائے بیرون ملک اپنا مستقبل زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔
آخر ان حالات کی وجوہات اور ان کا حل کیا ہے؟ کیا ہم مایوسی کے گھپ اندھیروں سے نکل کر خوش حالی کی کوئی تدبیر کر سکیں گے یا پھر یونہی شتر بے مہار تباہی در تباہی کا سامنا کرتے کرتے خدانخواستہ اس انتہا کو پہنچ جائیں گے کہ جہاں سے واپسی ایک بھیانک خواب لگے۔ اہل علم و دانش پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کس قدر پریشان اور فکر مند ہیں اس کا اندازہ خوشی غمی کی نجی محفلوں میں ہونے والی گفتگو سے کیا جاسکتا ہے۔ ہر کوئی ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ جناب اب کیا ہوگا؟ اس سے زیادہ تباہی کیا ہوسکتی ہے؟ کیا ہم پاکستان کی عزت ووقار بحال کرپائیں گے ؟ کوئی ایسا لیڈر یا سیاسی جماعت ہے جو ملک و قوم کی سمت درست کرسکے۔ اس طرح کے سوالات کا پہاڑ کھڑا نظر آتا ہے لیکن اس پہاڑ کی چوٹی کیسے سر کی جائے فی الحال کسی فیصلہ ساز کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں۔
محفلیں سجتی ہیں، لایعنی بحث جاری رہتی ہے۔ نشستندو گفتند وبرخاستند والا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ یہ فیصلے عوامی محفلوں، جلسوں، جلوسوں، پارٹی منشوروں سے بالا تر کہیں ٹھنڈے ڈرائنگ روموں میں ہوتے ہیں اور جن چند اشرافیوں کویہ اہم فیصلے کرنے ہیں وہ ملکی معاشی حالات سے بے خبر ہرحال میں خوش اور خوش حال ہی نظر آتے ہیں چاہے بجلی، گیس، پٹرول بموں سے گھروں کے گھر تباہ ہوجائیں۔ فیصلہ سازوں کو اس تباہی سے کوئی سروکار نہیں۔
ماحول اور محفل انتہائی سوگوار تھی، پہچان فورم کے اراکین راقم کے ساتھ خالد ارشاد صوفی ڈائریکٹر کاروان علم فاؤنڈیشن، شاہد نذیر چوہدری ، امجد اقبال ، اشرف سہیل ،ذبیح اللہ بلگن ، خالد قریشی ڈائریکٹر مسلم ہینڈز اور قیصر شریف ترجمان جماعت اسلامی پاکستان، جناب ضیاءالحق نقشبندی(الامین اکیڈمی) کے بہنوئی کے انتقال پر فاتحہ خوانی اور اظہار تعزیت کیلئے موجود تھے جہاں محترم مجیب الرحمن شامی ہمارے مخاطب تھے۔ غم اور دکھ کے اس موقع پر جناب مجیب الرحمن شامی کے ساتھ موجودہ ملکی حالات پر تقریباً دو گھنٹے سے زائد ایک غیر رسمی فکری نشست کی صورت شرکائےگفتگو کو ماضی، حال کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ نشست کا آغاز گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شامی صاحب کی غیرسیاسی گفتگو سے ہوا جہاں وہ اندرون و بیرون ملک مخیر پاکستانیوں سے اپیل کرتے نظر آئے کہ کاروانِ علم فاؤنڈیشن جس کی بنیاد ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی (اُردو ڈائجسٹ) نے 19 سال قبل رکھی تھی، اب یہ کارواں ان کی زیرسرپرستی رواں دواں ہے۔ اس کارواں کا واحد مقصد ایسے ذہین باصلاحیت طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف دینا ہے جو ان تعلیمی اداروں میں داخلہ تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن والدین اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ کاروان علم فاؤنڈیشن اب تک تقریباً 8700 طلبہ و طالبات کو 23 کروڑ روپے سے زائد کے وظائف دے چکی ہے۔ اس کارواں کو رواں دواں رکھنے کیلئے دنیا بھر میں موجود پاکستانی مزید مالی ایثار کریں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محترم شامی صاحب اور جناب سہیل وڑائچ کی سرپرستی میں پیر ضیاءالحق نقشبندی کی زیر نگرانی الامین اکیڈمی شادمان لاہور ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ایسے بچوں اور بچیوں کو جن کے والدین ہاسٹل، کھانے پینے اور تعلیمی اخراجات کی سکت نہیں رکھتے انہیں مقابلے کے امتحانات (سی ایس ایس،پی سی ایس) کی مفت تیاری اور مذکورہ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس ادارےکے تعلیم یافتہ سینکڑوں نوجوان مقابلے کے امتحانات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔
شامی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایوب خان نے دنیا بھر میں موجود پاکستانی کاروباری شخصیات ، صنعت کاروں، سرمایہ کاروں کو اس بات پر قائل کرلیا تھا کہ پاکستان کو صنعتی طور پر دنیا کی ایک مضبوط قوت بنانا ہے۔ ایوب خان کے قائل کرنے پر یہ تمام لوگ پاکستان کو صنعتی ترقی دینے کیلئے اکٹھے ہوئے، پاکستان میں سرمایہ کاری کی، صنعتوں کا جال بچھایا ، توقع یہی تھی کہ پاکستان بڑی تیزی سے دنیا کے صنعتی اُفق پر اپنا لوہا منوا لے گا۔ یہاں تک کہ ہم عالمی معیار کی کاریں اسمبل کرنے کے بجائے مکمل طور پر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ایکسپورٹ بھی کرسکیں گے۔(جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)