ائیر لائن کے کاؤنٹر پر موجود شخص اگر آپ کا پاسپورٹ دیکھ کر کہےکہ جناب آپ کی تو ٹکٹ ہی بُک نہیں ہوئی تو ایک مرتبہ ہاتھوں کے طوطے اُڑ جاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ایمسٹرڈیم ہوائی اڈے پر ہوا۔ میری برلن کی ٹکٹ اسے نہیں مل رہی تھی ، اُس نے پاسپورٹ کھنگال کے دیکھا ، پھر میرا پورا نام پوچھا، نام کے ہجے پوچھے،پی این آر نمبر پوچھا، بالآخر ٹکٹ مل گئی۔ پھر کہنے لگا کہ ٹکٹ تو ہے مگر جہاز بھرا ہوا ہے، سیٹ نہیں ہے۔ ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’مطلب یہ کہ جب گیٹ کھلنے میں چالیس منٹ رہ جائیں تو وہاں عملے کو کہنا کہ آپ کے لیے سیٹ کا بندوبست کرے، امید ہے ہو جائے گا۔‘‘ مجھے لگا جیسے میں نے شکر گڑھ جانے والی بس کی ٹکٹ خریدلی ہےکہ جگہ ملی تو ٹھیک ورنہ کھڑے ہو کر جانا پڑے گا۔ یہی بات میں نے اُس متعلقہ بندے کو بھی کہی جس نے میرے لیے سیٹ کا انتظام کرنا تھا، اُس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہاکہ ابھی ہماری ائیر لائن میں ’’آؤٹ اسٹینڈنگ کلاس‘‘ شروع نہیں ہوئی اور پھر میرے ہاتھ میں بورڈنگ کارڈ تھما دیا۔
برلن پہنچا تو رات کے دس بج رہے تھے ، محبی شاہد گوندل فرام منڈی بہاالدین مع اپنے یارِ غار قمر الزمان، مجھے لینےکیلئے موجود تھے ۔اگلے چار دن اِن دونوں احباب کی معیت میں گزرے اور یادگاربن گئے۔ گوندل صاحب بنیادی طور پر کاروباری آدمی ہیں،سیلف میڈ ہیں، جرمنی میں رہتے تھے مگر پھر پاکستان آگئے، تاریخ ، مذہب اور معاشرت سے انہیں خاص لگاؤ ہے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی موصوف نےبرلن کی تاریخ بیان کرنا شروع کردی کہ جب مشرقی اور مغربی جرمنی علیحدہ تھا تو اُس وقت برلن، گو کہ مشرقی حصے میں تھا ،کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔مغربی جرمنی والوں کو جب اپنے حصے کےبرلن آنا ہوتا تو براستہ سڑک آتےجس کے دائیں بائیںاترنے کے لیے کوئی موڑ نہیں تھا۔اپنے حصے کے برلن میں مغرب والوں نے شراب خانے اور قحبہ خانے بنا لیے جہاں مشرقی حصے سے صرف سیاحوں کو جانے کی اجازت ہوتی تھی مگر دیوار برلن گرنے کے بعد یہ سب کچھ ختم ہوگیا اور وہ برلن کہیں کھو گیا۔یہ کہتے ہوئے اچانک گوندل صاحب نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا’’یہ جگہ دیکھ رہے ہیں، جب سوویت یونین نے اتحادیوں کا برلن میں راستہ بند کر دیا تو امریکہ نےیہاں سے ائیر لفٹ کرکے برلن میں ضروری اشیا اور سامان پہنچانا شروع کیا تھا۔‘‘میں نے گوندل صاحب کو کہا قبلہ فی الحال آپ میرا سامان ہوٹل میں پہنچا دیں، جرمنی کی تاریخ میں پھر کبھی آپ سے پڑھ لوں گا۔ اِس پر قمر الزمان نے ، جو اب تک خاموشی سے گاڑی چلا رہے تھے، ایک قہقہہ لگایا اور بولے ’’ بالکل ٹھیک ہے ، آپ یہ بتائیں کھانا کیا ہے؟‘‘ اور پھر اگلے چار دن تک قمر صاحب نے ایسے ایسے لذید کھانے کھلائے کہ میرا وزن گزشتہ دس برس میں اپنے بلند ترین مقام پر پہنچ گیا۔اول تو ہوٹل کا ناشتہ ہی اِس قدر بھرپور ہوتا کہ کسی قسم کے کھانے کی گنجائش نہ رہتی مگر بمشکل تین گھنٹے بعدہی موصوف دوپہر کے کھانے کا اور چھ بجے رات کے کھانے کا پوچھنا شروع کردیتے۔ گوجرانوالہ کے لوگوں کی طرح آدھی رات کا کھانا اِس کے علاوہ ہوتا!اگلی صبح ہم نے گاڑی نکالی اور پوٹس ڈیم کی طرف روانہ ہوگئے، یہ شہر برلن سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔راستہ بے حد خوبصورت ہے،دائیں بائیں کہیں جنگل ہے تو کہیں جھیل، اِس جنگل کو Grunewald کہتے ہیں یعنی سبز جنگل۔راستے میں گوندل صاحب نے پھر اسٹارٹ لیا اور جرمنی کی تاریخ اور جرمن لوگوں کی خصوصیات بیان کرناشروع کردیں۔اِس پر تو ہمارا اتفاق تھا کہ یورپی ممالک نے جو نظام بنا لیا ہے وہ قابل ِرشک ہے،یہی وہ نظام ہے جس کیلئے ہم جدو جہد کر رہے ہیں مگر ہنوز دلی دور است ،تاہم اِس نظام نے یورپی لوگوں کو مشین بنا دیا ہے اور یہ ہر فیصلہ نظام کے تابع ہوکر کرتے ہیں۔ راستے میں ہمیں ایک ریستوران نظر آیا جس کے باہر کرسیاں لگی تھیں، چونکہ بارش شروع ہوگئی تھی اِس لیے ہم نے سوچا کہ کرسیوں کے اوپر لگی چھتریوں کو کھلواکر باہر بیٹھا جائے اور بارش کے ساتھ کافی کا لطف اٹھایا جائے۔میں نے شرط لگا کرکہا کہ اگر ویٹرس نے ایک دفعہ ’’سسٹم کے تحت‘‘ چھتریاں کھولنے سے انکار کردیا تو پھر وہ کسی انسان کی دلیل اسے قائل نہیں ہوگی۔ یہی ہوا۔ ہم نے ویٹرس سےدرخواست کی کہ ہم باہر بیٹھنا چاہتے ہیں لہٰذا چھتریاں کھول دے بھلیے لوکےلیکن اُس نے انکار میں سر ہلا کر کہا کہ یہ چھتریاں صرف اِس لیے ہیں تاکہ دھوپ میں بیٹھتے وقت کھولی جائیں ،بارش میں نہیں ۔اُس کے دماغ میں چونکہ یہ بات فیڈ کی گئی تھی اِس لیے وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ہم نے بھی ہار نہ مانی اور وہیں دیوار کے ساتھ کرسی لگا کر بیٹھ گئے تاکہ بارش کے چھینٹے ہم پر نہ پڑیں۔
پوٹس ڈیم سے ایک فیری چلتی ہے جو دو گھنٹے تک جھیل میں چکر لگاکر اِس پورے علاقے کی سیر کرواتی ہے۔ہم فیری میں بیٹھ گئے۔ یہ فیری آئن اسٹائن کے قصبے تک بھی جاتی ہے، اِس کا نام Caputhہے، میں چند سال پہلے یہاں آیا تھا اور آئن اسٹائن کے آستانے پر حاضری دی تھی۔آئن اسٹائن کو اِس قسم کے علاقے بہت پسند تھے، جھیل کے کنارے اُس کی کشتی کھڑی ہوتی تھی اور وہ اُس میں سیر کیا کرتا تھا، اُس زمانے کے مختلف مشاہیر کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے اُس کی تصاویر بھی یہیں کی ہیں۔جرمنی کے دیگر نامور مصور ، لکھاری اور آرٹسٹ بھی پاس کے جزیرے Werder Island میں رہے ہیں،یہ جگہ ایسی ہی خوبصورت ہے کہ انسان یہاں آکر دم بخود ہوجاتا ہے ۔ہماری کشتی پانی میں ہچکولے لیتے ہوئے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی،آئن اسٹائن کا قصبہ پیچھے رہ گیا تھا، دائیں جانب جزیرہ تھاجہاں قطار اندر قطار خوبصورت گھربنے ہوئےتھے، اِن گھروں کے باہر بچے کھیل رہے تھے، پرے کہیں ریل کی پٹری تھی۔ ہم نے فیری کی اوپری منزل سے یہ منظر دیکھا، کافی کے گھونٹ بھرے اور پھر نیچے آ گئے۔ ہم نے آپس میں کوئی بات نہ کی،لیکن اِس کے باوجود ہمیں پتا تھاکہ ہم تینوں کیا سوچ رہے ہیں، وہی سوال جو یہاں پاکستان میں بھی ذہن میں آتا ہے اور یورپ جا کر اُس میں مزید تلخی آجاتی ہے۔اگر ایک دوسرے کے خلاف دو عظیم جنگیں کرنے کے بعد، کروڑوں انسان مارنے کے بعد، اپنے شہروں کو کھنڈر بنانے کے بعد، یہ قومیں پچاس سال سے بھی کم عرصے میں ترقی کر سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ اِس سوال کو دل میں لیے ہم برلن واپس آ گئے۔