• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی گرفتاری اُس وقت عمل میں آئی جب اُنہیں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں کرپٹ پریکٹس کے الزامات ثابت ہونے اور جھوٹے اثاثے ظاہر کرنے کے الزام میں 3سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سناتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔ اس طرح وہ پہلے سابق وزیراعظم ہیں جنہیں توشہ خانہ میں بدعنوانی کے الزام میں جیل جانا پڑا۔

توشہ خانہ میں ہونے والی لوٹ مار کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ سابق وزیراعظم کو پونے چار سالہ دور حکومت میں مختلف ممالک کے سربراہان کی جانب سے مجموعی طور پر 112 تحائف ملے جن میں شوپارڈ، رولیکس گھڑیاں، سونے اور ہیرے جڑے زیورات، سونے کے قلم، ہیرے سے جڑے کفلنکس، سونے کی کلاشنکوف اور دیگر بیش بہا قیمتی تحائف شامل تھے مگر عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے اِن قیمتی تحائف کو سرکاری توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے اپنے پاس رکھا جبکہ وزیراعظم کی تشکیل کردہ ویلیو ایشن کمیٹی نے کروڑوں روپے کے تحائف کی مالیت کا اندازہ صرف 14.2 کروڑ روپے لگایا جو حقیقی مارکیٹ ویلیو پر مبنی نہ تھا جنہیں عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی 4 کروڑ روپے کی ادائیگی کرکے بنی گالہ لے گئے۔ اِن تحائف میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے دی گئی شوپارڈ گھڑی کا سیٹ جس میں قیمتی پین اور کفلنکس بھی شامل تھااور ان پر خانہ کعبہ کی شبیہ کندا تھی، 2 ملین ڈالر (57.5کروڑ روپے) میں دبئی میں فروخت کیے گئے۔ یہ قیمتی سیٹ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی دوست فرح گوگی پرائیویٹ چارٹرڈ طیارے میں لے کر دبئی گئیں اور اُسے عمر فاروق نامی شخص کو 2 ملین ڈالر میں فروخت کرکے رقم کیش کی صورت میں پاکستان لائیں۔ کسی بھی ملک کے حکمراں عام طور پر بیرون ملک کے سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف کو اپنے لئے اعزاز تصور کرتے ہیں اور اُنہیں یادگار کے طور پر محفوظ رکھتے ہیں۔ سعودی حکمرانوں کی جانب سے دیئے گئے تحائف خاص طور پر شاہی خاندان کیلئے تیار کئے جاتے ہیں جن پر شاہی خاندان کا مونوگرام کندا ہوتا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا عمران خان کو قیمتی تحفہ دینے کا مقصد شاید یہ تھا کہ برادر اسلامی ملک کا وزیراعظم اُسے زیب تن کریگا مگر افسوس کہ شاہی خاندان کے تحفے کی قدر نہ کی گئی اور اُسے کھلے عام مارکیٹ میں فروخت کردیا گیا۔ عمران خان کو دی گئی بیش قیمت گھڑی دبئی میں جب فروخت کیلئے منظر عام پر آئی تو شوپارڈ کمپنی نے شاہی محل سے دریافت کیا کہ کہیں یہ گھڑی چوری تو نہیں کی گئی جس سے نہ صرف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور شاہی خاندان کو دلی صدمہ پہنچا بلکہ یہ پاکستان کیلئے بھی شرمندگی کا سبب بنا۔

توشہ خانہ کیس عدالت کیلئے بھی اوپن اینڈ شٹ کیس تھا۔ عمران خان نے نہ صرف توشہ خانہ کے تحائف فروخت کی غرض سے اپنے پاس رکھے بلکہ اُن کی تشکیل کردہ ویلیوایشن کمیٹی نے تحائف کی مالیت کا اندازہ بہت کم لگایا اور پھر اُسے مہنگے داموں فروخت کردیا گیا جو عمران خان کی سزا اور نااہلی کا سبب بنا۔ توشہ خانہ کیس میں سزا عمران خان کیلئے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے جبکہ 190 ملین پائونڈ کا القادر ٹرسٹ کیس اور فارن فنڈنگ کیس بھی ناقابل تردید ثبوت و شواہد پر مبنی ہیں جس میں عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ عدالت سے 5 سال کی نااہلی اور پارٹی قیادت سے محرومی کے نتیجے میں عمران خان کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے اور امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ سیاسی میدان کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹتے نظر آئیں گے۔

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی حالیہ گرفتاری اور 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری میں فرق یہ ہے کہ اِس بار اُن کی گرفتاری پر پارٹی کارکنوں کی جانب سے کوئی مظاہرہ یا ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ آج عمران خان اٹک جیل کے کمرے میں بیٹھے یقیناًیہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب مکافات عمل ہے۔ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور کرپشن کے خاتمے کا بیانہ لے کر اقتدار میں آئے تھے اور عوام نے اُن کے جھوٹے بیانئے پر یقین کیا تھا مگر توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیسزنے اُنہیں کرپٹ ثابت کردیا ہے۔ اس طرح عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد صاد ق اور امین نہیں رہے۔

تازہ ترین