میں ایک لاش ہوں، تعفن زدہ ، گلی سڑی لاش، اب تک ٹھیک چالیس یا پچاس گھنٹے پہلے میں ایک زندہ جاگتا انسان تھا،ٹھہریں بلدیہ لاہو ر کا عملہ مجھے بے دردی سے اٹھا کر ٹرک میں پھینک رہا ہے۔بے فکر رہیں میں دکھ تکلیف حتیٰ کے رنج و غم سے آزاد ہوچکا ہوں۔ مجھے ان کی جانب سے اتنی بے رحمی سے ٹرک میں پھینکنے پر تکلیف محسوس ہو رہی ہے نہ دکھ..... آپ مجھ سے نفرت کر سکتے ہیں میں ایک نشئی ہوں اور ہاںمیری موت بھی نشہ کی زیادتی سے ہوئی ہے۔ یقینی بات ہے جب میں پیدا ہوا تو میرے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پاکستان کی موجودہ بے روزگاری کی فضا میں لڑکی کا پیدا ہونا اتنی خوشی کی بات نہیں سمجھا جاتا۔ میں لڑکا تھا،میری ماں پھولے نہیں سما رہی تھی۔بیٹا جو ہوا تھا اور میرے باپ کا چہرہ تو دیکھنے والا تھا۔ خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ، فخر سے پھولا سینہ لئے وہ مبارکباد یں وصول کر تا رہا۔ مٹھایاں بھی بٹیں۔ میں اپنے باپ کے دل کی دھڑکنیں سن سکتا تھا۔ ایک مطمئن دل کی دھڑکن جیسے کہہ رہا ہو میرے بڑھاپے کا سہارا پیدا ہوگیا، میرابازو پیدا ہوگیا۔ خیر اب میں اپنی پوری زندگی کی کتھا کیا سناؤں، چلیں پھر آپ کو اپنے آخری دنوں کے لمحے سناتا ہوں۔ آپ ایک لاش سے دلچسپ باتوں کی توقع نہ رکھیں۔ گاؤں میں جوان ہونے کے بعد مجھے کھانے کی فکر ہوئی ۔ میں تو پہلے کہہ چکا آپ مجھ سے نفرت کریں۔ میں ایک تیسرے درجے کا نشئی ہوں۔ نشے کا سفر سگریٹ سے شروع ہوا پھر چرس، ہیروئن اور آخر میں نشے کے انجکشن۔ میں جانتا ہوں آپ کے پاس میرے جیسے لوگوں کے لیے وقت نہیں ہے۔
میں لاہور آگیا، محنت مزدوری سے اتنے پیسے کہاں ملتے کہ گھر بھی بھیج پاتا۔ جو ملتا میں کھا لیتا اور رات کو انجکشن لگا لیتا۔ آپ حیران ہوں نہ ہوں میں کیا کروں آپ کو نظر نہیں آتا۔ داتا صاحب کے مزار کے ارد گرد اور لاہور کے مختلف پارکوں میں مجھ جیسے سینکڑوں یہی کرتے ہیں۔ خیر ہم لوگ آپ کا مسئلہ نہیں ۔ ایک دن میں شدید بیمار ہو،ا ایسابیمار کہ میں داتا صاحب مزار کے سامنے کے فٹ پاتھ پر گرپڑا۔ بس میرا گرنا تھا کہ میں پھر نہ اٹھ سکا۔ فٹ پاتھ پرمیں سردی سے ایڑیاں رگڑتا رہا۔ میرا جسم نیلا پڑ گیا۔ میں لمحہ لمحہ موت کی جانب بڑھنے لگا۔ اب میں تھا اور میری موت ..... میراجسم سردی ،درد، بھوک پیاس سے عاری ہوچکا تھا۔ مزار پر آنیوالے زائرین کے ولولہ انگیز نعروں اور ڈھول کی تھاپ مجھے احساس دیتی ابھی میں زندہ ہوں ابھی مرا نہیں، مجھے معلوم ہے آپ بھی اب بور ہورہے ہیں کہ میں مرکیوں نہیں رہا۔ میں مروں اور قبرستان سا کالم بند ہو۔ کئی دن کے فاقے سردی کے تھپیڑوں نے مجھے تھپک تھپک کر موت کی آغوش میں پہنچاہی دیا۔ میں مرگیا، مجھے مکتی مل گئی۔ آخر کتنے دن میںاتنے ہجوم میں تنہا موت کا انتظار کرتا۔ غنودگی میں کبھی مجھے محسوس ہوتا میری ماں پکار رہی ہےـ’’ وے پترا آجا، تجھے سردی لگ رہی ہے مجھے، آجا میرا چاندٹکر کھا جا‘‘۔ مرتے انسان کی مسکراہٹ ہی حسین ہوتی ہے۔ زندگی سے بھر پور...... کبھی مجھے میر ا باپ آوازیں دیتاسنائی دیتا،’’اوئے کھوتیا کہتا تھا نا کہ لاہور نہ جا ، چل میری چھاتی سے لگ جا‘‘، مرتے مرتے مجھے سب یاد آیا تھا ۔ مری بہن جو مجھے کہا کرتی تھی ویرا دیکھنا تیری شادی پر باگ پھڑائی ڈھیر ساری لوں گی۔ میں مسکرا کر کہتا اس سے پہلے میں نے تیری ڈولی رخصت کرنی ہے۔ اندر سے وہ سرپر دوپٹہ رکھ کر نظریں نیچے کر لیتی۔ معلوم نہیں کہاں ہوگی، کیسے ہوگی، وہ تو میری منتظر ہوگی۔میں نہیں آؤں گا اب بس کھیل ختم......
میں داتا کی نگری میں زندہ دلان لاہور کے شہر میں تنہا بھوکا پیاسا چپ چاپ مر گیا۔ اس عبرت ناک موت کا میں خود ذمہ دار ہوں۔ میں نے نشہ شروع کیااور پھر کرتا چلاگیا۔ اتنا نشہ کیا کہ پھر زندگی میں کچھ اور نہ کر سکا سوائے مرنے کے ۔ جنہوںنے مجھے نشہ لگایا، قانون اور انصاف پر مبنی معاشرے میں چرس ، ہیروئن بیچ کر مجھ جیسے لاکھوں نوجوانوں کو ناکارہ کیا ۔ مرنے پر مجبور کیا ،ماردیا۔ و ہ سبب معاشرے کے ستون ہیں۔ ان معززین سے ہی تو اس معاشرے کا حسن ہے۔ عدالتوں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں نہایت اطمینان اور محفوظ طریقے سے ہم جیسوں کو نشہ پانی بیچتے ہیں اور پھر مقدس مقامات پر پانی کے کولر، صفیں اور چادریں رکھ کر نیک پرہیزگار وں میں اپنا شمار کراتے ہیں۔ چھوڑیں ایسی باتیں سوچنا اور کرنا مجھ جیسوں کو زیب نہیں دیتیں۔ ہمیں بس مرنا ہوتا ہے۔
سن لیں جب میں مرگیا تو اڑتالیس گھنٹے تک میری لاش بے گوروکفن فٹ پاتھ پر پڑی رہی۔ میرے قریب سے سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ گزرتے رہے۔ قہقہے لگاتے ، ٹھٹھا کرتے، کسی نے اتنی زحمت نہ کی کہ وہ مجھے دیکھ لیتا کہ ایک انسان فٹ پاتھ پر کئی روز سے مراپڑا ہے۔ مانا میں اور مرے جیسے نشئی قابل نفرت ہیں۔ معاشرے کا ناسور ہیں ۔ کیا معاشروں کے برے لوگوں کو مرتے دیکھنے مرنے کیلئے چھوڑ دینا ہی مہذب پن ہوتا ہے۔ اتنے بڑے ولی اللہ کے مزار پر چادریں چڑھتی رہیں، نیازیں بٹتی رہیں، دھمالیں پڑتی ہیں...... لوگوں کے اس ہجوم میں میں فقط ایک انسان کامنتظر رہا لیکن شاید مسیحائی انسانیت احساس اور آدمیت کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ مجھ جیسے سیاہ بختوں کی جانب توجہ دی جائے۔ میں فٹ پاتھ پر دو دن تین راتیں بے گوروکفن پڑا رہا۔
میں مرچکا، اب پولیس میری تدفین کرے گی۔ مجھے نامعلوم لاوارث قرار دے کر دفنا دیا جائے گا۔ قصہ ختم۔ لیکن اگر آپ میں ہمت ہے تو ایک بار اس کفن سے میرا چہرہ ضرور دیکھیں۔ غور سے دیکھیں ،یہ میں نہیں شرافت کا جنازہ ہے۔ دیکھیں دیکھیں یہ ایک نامعلوم انسان کی لاش نہیں ، اس معاشرے کی لاش ہے۔ معاشرہ جو میر ی طرح گل سڑ چکاہے۔ جس میں مجھ سے زیادہ تعفن اٹھ رہا ہے۔ جس کا چہرہ اپنی ذات میں گم رہنے کی خواہش نے بگاڑ کر اس حد تک بدصورت بنا دیا ہے کہ دنیا اسے نفرت سے دیکھتی ہے ۔ مجھے غور سے دیکھیں میری شکل میں آپ کو لاکھوں بے بسوں کی موت نظر آئے گی ۔ جو فٹ پاتھ ، گٹروں ،سنسان پارکوں، اندھیری گلیوں، کچرہ کنڈیوں میں ایڑیاں رگڑتے مر رہے ہیں۔ میرے چہرے پر وہ چہرے تلاش کریں جو اس ملک کو ہیروئن کی شکل میں مو ت دیکھ کر بھی معزز ہیں۔ میں تو مرچکا ۔ کاش نفسانفسی ، خود غرضی ،آگے نکل کر حرص میں حلقوم سے باہر نکلی زبانوں کے ساتھ وحشیوں کی طرح بھاگتے کسی کی نظر ہم جیسوں پر پڑ کررک بھی جائے۔ میں ایک نامعلوم اور لاپتہ مردہ نہیں ہوں۔ میں اکیلا اپنی موت کا ذمہ دار نہیں، میرے قاتل آپ بھی ہیں۔
(لاہور ۔۔۔ مزار داتا صاحب کے قریب دو دن سے سڑتی نامعلوم فرد کی لاش کو بلدیہ لاہور نے اٹھا کر سپرد خاک کر دیا، اخبارات کی ایک خبر)