جب تک یہ کالم اخبار میں چھپے گا، درباریوں کایہ ٹولہ،جس کی قیادت اعلیٰ عہدوں کے خواہش مند کے ہاتھ میں تھی، اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اس امید پر رخصت ہوچکا ہوگا کہ وہ جلد ہی واپس آئیں گے اور اپنی شرم ناک کارکردگی دہرا سکیں گے۔ وہ ایسا اس لیے سوچتے ہیں کہ ملک کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب ایک بار نکالے جانے والے لیڈروں کو جوڑ توڑ اورچالبازی کی بدولت دوبارہ قبول کرلیا گیا اور انھیں اقتدار کا موقع مل گیا۔
عمران خان وہ واحدلیڈر ہے جسے اس حوالے سے استثنا حاصل ہے کیونکہ وہ ملک چھوڑ کر کسی محفوظ پناہ گاہ کی طرف کبھی نہیں جائے گا اورپھر مناسب موقع دیکھ کر اپنی واپسی کی سہولت کاری ڈھونڈے گا، اور نہ ہی اپنے نظریے کے ان بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کرے گا جنکی بدولت اسے یقین ہے کہ طویل عرصے سے تاریک کھائی میں گری ہوئی ریاست اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ وہ عوام جن کی حالت بتدریج خراب ہوتی جا رہی ہے کیونکہ حالات ناقابل برداشت ہیں اور زندگی ایک کمر توڑ بوجھ بن کر رہ گئی ہے۔
بے شمار وجوہات ہیں جن کی وجہ سے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اتحادی حکومت کے گروہ نے پارلیمنٹ کا جس طرح مذاق اڑایا اس کی مثال اس مصیبت زدہ ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسے قانون سازی اور پہلے سے موجودقوانین اور قواعد و ضوابط کو نافذ، ترمیم اور تبدیل کرنے کیلئےبے دریغ استعمال کیا گیا جن کے پیچھے دو مقاصد تھے۔خود کو ماضی میں کی گئی ان گنت چوریوں کے الزام سے نجات دلانااورمعاشرے کے کمزور طبقات کوجبراََ ان کے آئینی اور قانونی حقوق سے محروم کرنا۔
ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے میڈیا کو اس بات کا پابند کردیا کہ کوئی مخالف نظریہ نشر نہ ہو، اور نہ کسی کو حکومت پر تنقید کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس نے ملک کے جمہوری تشخص کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ کبھی اخلاقی اور آئینی بنیاد پر کھڑا بھی ہو سکے گا یا پھر یہ طاقت ور افراد کے رحم و کرم پر رہے گا جو اپنی من مانی کرتے رہیں گے۔ گزشتہ سولہ ماہ کا عرصہ ناقابل بیان حد تک گھمبیر رہا ہے۔ اس کی سنگینی کو چند سطروں میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ پاکستان میں رونما ہونے والے سانحے کا احاطہ کرنےکیلئے کئی ضخیم کتابیں درکار ہوں گی۔
اب تک کی سب سے کم جی ڈی پی کی شرح جو منفی پانچ فیصد ہے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت ہٹائی گئی تو یہ 6.1 فیصد تھی۔
مینوفیکچرنگ اور زراعت میں منفی ترقی۔75 برسوںمیں ریکارڈ بے روزگاری، پی ٹی آئی حکومت کے دوران 6.2فیصد کے مقابلے میں 8.5فیصد، یعنی 20لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے ۔ سالانہ مہنگائی اب تک کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی، پی ٹی آئی حکومت کے دوران 12.2فیصد کے مقابلے میں 38 فیصد۔ اب تک کی بلند ترین شرح سود، یعنی 22فیصد۔ 1994ءکے بعد سب سے پست کریڈٹ ریٹنگ، روپے کی قدر میں کمی کا اب تک کا ایک بدترین دور، حکومت کے 460دنوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں 105روپے کی گراوٹ دیکھی گئی۔ سولہ ماہ کے دوران 20ٹریلین روپے سے زائد کا اضافی قرض جب کہ پی ٹی آئی نے 40 ماہ میں 18.3ٹریلین روپے قرض لیا۔روپے کی مطلق شرح کے حوالے سے سب سے زیادہ مالیاتی خسارہ 6,400بلین روپے کسی بھی حکومت کا ریکارڈ ہے۔2022-23ء کے ٹیکس اہداف ایک ہی سال میں 40فیصد کمی کے باوجود بڑے مارجن سے ہدف حاصل نہ ہوسکا ۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ترسیلات زر جو 31.3 بلین ڈالر تھیں، کم ہو کر 27 بلین ڈالر رہ گئیں۔پی ٹی آئی حکومت کے دوران برآمدات 31.7بلین ڈالر تھیں جو کم ہوکر 27.7بلین ڈالر تک گر گئیں۔بجلی کے نرخوں میں بڑے اضافے کے باوجود لوڈشیڈنگ اور گردشی قرضہ بھی بڑھ گیا۔یہ حکومت کی طرف سے بے بس لوگوں پر ڈھائے جانے والے جان لیواستم کی ایک مختصر سی داستان ہے۔ ہر روز اس گروہ کے اقتدار میں رہنے نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا اور ان کی زندگیوں کو مصائب کے گرداب سے نکلنے نہ دیا یہاں تک کہ اُن پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا۔ حکومت کے بے سمت ہونے کی وجہ سے مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے ۔ امید کی کوئی کرن ہویدا نہیں۔
اب یہ کوئی راز نہیں کہ ملک میں امید کی شمع کیوں گل کردی گئی۔ بہترین کارکردگی کی راہ سے ہٹا کربے مثال جبر کے دور میں کیوں دھکیل دیا گیا۔ اس کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب لوگوں کو سکون کا سانس نصیب ہوا ہو۔ بلندی سے پستی کا یہ سفر نہایت تلخ تجربات سے عبارت ہے ۔ اس وقت ہم دوبارہ چوراہے پر کھڑے ہیں۔ جیسا کہ یہ دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، نگران حکومت کی ترجیح آئینی طورپر مقررہ 90 دن کی مدت میں انتخابات کرانا ہونی چاہئے۔ لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کے امکان سے خوفزدہ ہو کر دھوکا دہی کے جال بُنے جا رہے ہیں کہ انھیں کسی نہ کسی بہانے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا جائے، چاہے وہ معیشت ہو، مردم شماری ہو یا کوئی اور دوسری ترکیب،مذموم منصوبہ یہ ہے کہ نگران حکومت کوقائم رکھا جائے یہاں تک کہ انہیں یقین ہو جائے کہ عمران خان کا ’’بندوبست‘‘ہو گیا ہے۔ جیسا کہ دکھائی دے رہا تھا، قید میں عمران خان اور بھی بڑا خطرہ بن گیا ہے جس کا ثبوت پشاور اور حویلیاں کے حالیہ بلدیاتی اداروں کے نتائج سے ملتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)