کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے،الحمدللّٰہ۔ عوام دشمن اور خواص دوست لنگڑی اسمبلی ختم ہوئی۔ روز مرہ کی بنیاد پر گھر گھر مہنگائی کی دُہائی تو جاری ہے لیکن امید جمہوریت نے بھی انگڑائی تو لی ہے۔ معاشی جبر پر پاکستانی 16 ماہ سے دال روٹی کے بھی کال میں جتنا مبتلا ہیں، شہباز حکومت کے جاتے جاتے بھی کروڑوں نیم فاقہ کشوں کو ہراساں کردینے والا گراف یکدم مزید تیزی سے بلند ہوا۔ بجلی اور پٹرول کے نرخ میں غیر معمولی اضافے نے ایک ہفتے میں ہی خوراک و صحت و تعلیم کے جو جو اور جتنے مسائل و مشکلات متوسط اور لوئر مڈل کلاس طبقے کیلئے پیدا کیں وہ جاتی حکومت کا بدترین ریکارڈ بنا۔ مٹ گئی، بالآخر لنگڑی اسمبلی اور شدید ریاستی مالی بحران میں بھی بغیر کسی کام کاج کے 87 رکنی کابینہ اور ’’مشاورت و معاونین‘‘ کے لشکر کے اللے تللے اور عیاشیاں اتنی ہی بڑھتی گئیں۔ جاتے جاتے رول ماڈل کے طور پر تاریخ میں امر ہوگئے کہ وزیر اعظم بعد از خاتمہ حکومت تیز ترین قانون سازوں کی غیر قانونی آسودگی کا بندوبست بھی کرگئے۔ اب یہ پابند صحافیوں کی پیشہ ورانہ پابندی ہے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کی نظروں سے بچی ترقیاتی فنڈز کی پی ڈی ایم کے اراکین اسمبلی میں 91 (اور بعض خبروں کے مطابق 87) ارب کے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے فالو اپ میں جائیں۔ کس کس کو کتنے کس کس حلقے میں کن کن ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز دیئے گئے، جو اب تیز ترین قانون ساز لنگڑی اسمبلی کے سابق اراکین ووٹروں کی عزت پر خرچ کریں گے یا نہیں کریں گے یا کھائیں گے اور لگائیں گے بھی۔
لیکن پاکستانیو! 16ماہی مکمل غیر جمہوری حکومت کا ٹی وی نیوز رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم کا جو انتہائی پرتکلف عشائیہ، سابق ہوئے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں گھر گھر مہنگائی کی دہائی سے بنی گہری مایوسی کے بادل ہٹانے کیلئے ہوا، وہ پوری پی ڈی ایم اولیگارکی (مافیا راج)کی عوام دوستی کا بھی تو مظہر ہے کہ ووٹ کی عزت کی اس سے بڑھ کر علامت اور کیا ہوسکتی ہے کہ نیم فاقہ کش ووٹرز کے نمائندوں کیلئے بیسیوں ڈشوں کے الوداعی ڈنر کا اہتمام، اصل میں تو ووٹر کی عزت کا مظہر تھا۔ گزرے رمضان میں ووٹروں نے جس طرح اور جیسا مفت آٹا جان ہتھیلی پر رکھ کر وزیر اعظم اسکیم سے حاصل کیا اور 22جانیں ہاریں،اس ذلت کو انواع و اقسام کے اولیگارکی ڈنر نے بیلنس نہیں کردیا؟
پاکستانیو! صبح تو ہونی ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا اوروہ ہوا چاہتی ہے، خطرہ ہے تم نہ سوتے رہ جانا۔ اس کا بہت اہتمام ہوا اور جاری ہے کہ تم سیاست کے جھنجھٹ سے بچے آرام ہی کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ تمہاری تازہ آکسیجن بھی نہ لے اُڑے، تم سست کے سست پڑے رہو اور طاقت و دولت کے دیوتا پھر تازہ دم ہو جائیں، دیر سے اٹھنا بھی تباہ کن ہوگا۔ مانا کہ مہنگی ترین سبزی و ترکاری کے بعد دال دلیہ کا حصول بھی محال ہونے پر (کہ بجلی جینے نہیں دے رہی) جان کم تر اور تمہارا جہاں بھی اندھیرا۔ جہاں اس لئے کہ نیم جاں ہو کر بھی 25 کروڑ ہو۔ لیکن بچنا ہے تو اٹھو، جاگے تو تھے پھر سو گئے، معلوم ہے مہنگائی بے پناہ اور اندھیرا بھی گھپ لیکن جان اور وطن تو ہر حال میں بچانا ہے۔
اک اور 14 اگست آگیا۔ علم و عزم و عمل، عقل سلیم، حکمت و جہد مسلسل اور سب سے بڑھ کر ہم سب کے بزرگوں نے ایمان و امن اور قلم و کلام سے تحریک بناتے چلاتے بڑھاتے، پھر جانیں قربان، عصمتیں لٹاتے اور اپنا خون بہاتے یہ جو پاکستان بنایا تھااسے ناچیز راقم کے اس بیانئے ’’آئین کا مکمل اطلاق اور سب شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ‘‘ کے پکے سچے بیانئے سے بچائیں۔ یہ ہی ہم سب کا قومی سیاسی بیانیہ ہو کہ یہ ہی صراط مستقیم ہے۔ اس عظیم اولین قومی ضرورت کو تو فقیر نےفقط بیانئے کی شکل ہی دی ہے اور آئین نو میں اس کی تکرار ہی نہیں تبلیغ برسوں سے جاری ہے۔ اس پر ہم سب (قیام پاکستان کی پہلی نسل) کے بزرگ پہلے ربع (کوارٹر) کی سیاسی حماقتوں اور اجتماعی گناہوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق لیتے 50سال قبل عملاً متفق ہو چکے ۔ کون سی پارلیمانی جماعت (یا پارلیمان سے باہر کی بھی) تھی جس نے آئین پاکستان 1973ء سے اتفاق نہ کیا اور اس کی دستخطی نہ بنی ہو۔ وائے بدنصیبی آنے والے وقت میں تادم اس (آئین) کے ساتھ سلوک توبدتر کیا اور اب انتہا لیکن 1956ء کے آئین کی طر ح اسے ملیامیٹ کرنے کی کوئی جرأت کر سکا نہ کرسکے گا۔ آئین کا مکمل اطلاق اور سب ملکی شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ ہی پاکستان کو موجودہ اضطراب، ابتری، بدحالی،باہمی افتراق ، خوف و ہراس اور بداعتمادی و غیر یقینی کو جڑ سے اکھاڑ کر سیاسی استحکام کی راہ پر ڈالے گا۔
قارئین کرام! الحمدللّٰہ! نیت نیک منزل آسان۔ لاہور میں سول سوسائٹی کی دیرینہ نمائندہ تنظیم سٹیزن کونسل پاکستان کے اجلاس میں متذکرہ برین اسٹارمنگ سے ہوئے اتفاق رائے سے غیر معمولی اور چونکا دینے والا اتفاق زیر بحث غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رویہ اختیار کی گئی ختم ہوئی لنگڑی اسمبلی کے الوداعی اجلاس میں بھی ہوگیا۔ جو پی پی کے کو چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے ہوا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے منجھے بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ تو آج کل آئین کے کامل ’’اطلاق اور سب شہریوں پر قانون کے یکساں نفاذ‘‘ کے لئے خود کو وقف کر چکے ہیں، اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ آئین دشمن موجود حکومتی ڈھانچے کے بدترین کھلواڑ کے خلاف اس کے سب سے بڑے متاثر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کوشدید ترین انتقامی رویے سے ہونے والے ظلم کے خلاف ڈٹ کر پارٹی سے بالا تر ہو کر آئین و قانون کی بالادستی کے لئے ان کے قانونی دفاع کے لئے سرگرم ہیں۔ اور بلاول نے جو پارلیمان میں الوداعی خطاب میں کمال انداز سے میاں نوازشریف صاحب اور جناب آصف زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، میاں صاحب اور زرداری صاحب لگتا ہے جس طریقے کی سیاست ہم (پی ڈی ایم) چلا رہے ہیں بڑوں کی ایسی 30 سالہ سیاست ہم (میں اور مریم) بھی بھگتیں گے، پارٹیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے جو سیاست بنائی گئی ہے اس میں اب RECONCILIATION (صلح) ضروری ہوگئی ہے۔ نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ہونا چاہیے۔ وگرنہ آپ میرے اور مریم صاحبہ کے لئے مشکلات پیدا کریں گے‘‘۔آئین کیساتھ مچائے 16ماہی کھلواڑ پر سابق وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کے ہمرکاب ہوتے، انہوں نے بھی بالآخر زندہ ضمیر اور کھلے طورپر مان لیا کہ ہم غلط راستے پر ہیں اور اب ایسا نہیں چلے گا۔ بلاول کا یہ اظہار خیال مکمل سنجیدگی اور افسوس و عاجزی کے لہجے میں تھا جیسے وہ میاں صاحب اور زرداری صاحب سے کوئی فریاد کر رہے ہوں۔لیکن وہ بھول گئے کہ ان کے غلط اور غیر جمہوری فیصلوں کے غلط طور پر متاترین وہ اور مریم خود بھی بن چکے ہیں کہ دونوں کی موجودہ اور مستقبل کی سیاست کی بنیاد فقط دو روایتی اور غلط فیصلے کرتے بزرگوں نے رکھی ہے۔ جبکہ مکمل ثابت شدہ ہے کہ آج کا 62 فیصد پاکستانی نوجوان کسی صورت گھرانوں سے نکلی قیادت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ان کالیڈر بدترین اسیری میں ہے۔ وہ اس غلط فیصلے کے کتنے بڑے شریک ہیں؟