اندازِبیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور سیاسی ارتقاء کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل کی بنیاد سول ملٹری غیرہم آہنگی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ غیر ہم آہنگی بڑھتی جا رہی ہے۔ بجائے اس کہ ہم اس غیرہم آہنگی کی وجوہات اور جزئیات بیان کرنے میں جائیں اور کسی ایک فریق کے نقطہ نظر کو غلط یا درست ثابت کرنے کی کوشش کریں اس سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہو گا کہ ہم اس غیر ہم آہنگی کو دور کرنے کی عملی کوشش کریں وگرنہ یہ غیرہم آہنگی ملک کے دشمنوں کو فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کرتی رہے گی اور عملی طورپر ملک کو عدم استحکام اور تباہی کی طرف دھکیل کر لے جائے گی۔
سول ملٹری ہم آہنگی کو سول ملٹری پارٹنرشپ بھی کہہ سکتے ہیں۔ سول ملٹری پارٹنرشپ پر پہلے بھی تھوڑی بہت یا نیم دلانہ کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کوششوں میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کا قیام اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی(NDU) کے چند کورسز میں سول بیوروکریسی کے افسران اور سویلین افراد کی شمولیت ہیں۔ اگرچہ یہ معمولی سی کوششیں ہیں لیکن ان سے سول ملٹری ہم آہنگی قائم کرنے میں کچھ نہ کچھ مدد ضرور ہو رہی ہے۔ NUST کے بانی ریکٹر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شجاعت حسین جو تقریباً سولہ سال اس عہدے پر فائز رہے انھوں نے کئی بار برملا اس بات کا اظہار کیا کہ ان کیلئےNUST کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان میں سول ملٹری پارٹنرشپ قائم کرنا تھا۔ NUST اپنے قیام کے اس بنیادی مقصد میں کچھ حد تک ضرور کامیاب ہوا۔ یہ بات راقم الحروف NUST کے اولین PhD یافتہ افراد میں شامل ہونے اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں وسیع البنیاد سول ملٹری پارٹنر شپ قائم کی جائے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل تین قابل عمل تجاویز اس مقالےکے ذریعے دی جا رہی ہیں:
1۔ پاکستان کی مسلح افواج کے افسران کی بھرتی مکمل طور پر جامعات سے چار سال کی ڈگری حاصل کرنے والے افراد میں سے کی جائے۔
2۔ پاکستان کی مسلح افواج کے تمام مینجمنٹ ٹریننگ اداروں کے تمام کورسز میں مسلح افواج کے افسران کا تناسب 50فیصد ہو اور اس کے علاوہ 25فیصد افسران سول بیوروکریسی اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے افسران ہوں جبکہ 20فیصد یونیورسٹی کے اساتذہ اور بقیہ 5فیصد عام شہریوں میں سے ہوں ۔
3۔ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے تیسرے اور چوتھے سال میں طلبا اور طالبات کیلئے تین تین ماہ کی لازمی فوجی تربیت کا انتظام کیا جائے جو مسلح افواج کے مختلف یونٹوں کے اندر ہی کی جائے۔
اب ہم ان تینوں تجاویز کی افادیت اور انہیںعملی جامہ پہنانے کے حوالے سے چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
افسران کی بھرتی بعد از یونیورسٹی ڈگری
ایک زمانے میں پاکستان کی مسلح افواج میں افسران کی بھرتی میٹرک کے بعد کی جاتی تھی اور سال دو سال کی ٹریننگ کے بعد انہیں افسران کے طور پر کمیشن بھی اسی تعلیمی استعداد پر دے دیا جاتا تھا۔ بعد ازاں ٹریننگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا تاکہ کمیشنڈ افسر بننے تک تعلیمی استعداد کو انٹرمیڈیٹ تک لے جایا جائے۔ اس کے بعد مزید تبدیلی آئی اور تعلیمی استعداد کو وقت کی ضرورت کے مطابق چودہ سالہ گریجویشن یعنی BA/BSc تک بڑھا دیا گیا۔ دوسری جانب افسران کی ٹریننگ کیلئے بھرتی انٹرمیڈیٹ یعنی اٹھارہ سال کی عمر میں کی جانے لگی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میٹرک کے بعد ٹریننگ کا دورانیہ چار سال سے زائد ہو گیا جس میں بڑی تعداد کا ٹریننگ کے دوران اخراج اور ٹریننگ کے بڑھتے ہوئے اخراجات تھے۔ اب موجودہ دور میں افسران کی تعلیمی قابلیت سولہ سالہ ڈگری تک کر دی گئی ہے لیکن ٹریننگ کیلئے بھرتی بدستور اٹھارہ سال کی عمر میں انٹرمیڈیٹ کے بعد کی جا رہی ہے۔ ٹریننگ کے دورانیہ کو دو ڈھائی سال تک محدود کرنے کیلئے ڈگری کا نصف حصہ کمیشن لینے سے پہلے اور نصف حصہ کمیشن ملنے کے بعد نئے کمیشنڈ افسران کو فیلڈ میں پوسٹنگ کے بعد مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل کی کامیابی اور سہولت کیلئے چیدہ چیدہ کنٹونمنٹس میں تعلیمی سہولت سینٹر بھی قائم کئے گئے ہیں۔یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ تکنیکی برانچوں میں افسران کی بھرتی جیسے کہ انجینئر ، ڈاکٹر ، ایجوکیشن ، آئی ٹی اسپیشلسٹ وغیرہ کیلئے ہر دور ہی میں شارٹ سروس کمیشن کیلئے سولہ سالہ یا اس سے زائد تعلیمی اسناد کے حامل افراد کی کمیشنڈ افسران کے عہدے پر بھرتی ہوتی رہی ہے۔ جب تک آفیسرز ٹریننگ اسکول منگلا قائم رہا فوج کی لڑاکا برانچوں میں بھی شارٹ سروس کمیشن کیلئے BA/BSc کے بعد افسران کی بھرتی ہوتی رہی۔
مندرجہ بالا تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا پڑے گا کہ مسلح افواج میں غالب اور قوت نافذہ کے حامل وہ افسران ہوتے ہیں جو کہ تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں لڑاکا آرمز میں بھرتی کئے جاتے ہیں اور اگرچہ ان کو چار سالہ ڈگری کورس بھی تعلیمی سند کے طور پر کرایا جاتا ہے لیکن اٹھارہ سال کی ناپختہ عمر سے انکی ایک خاص ذہن سازی کی جاتی ہے اور سویلینز سے ایک خاص احساس برتری اور اختلاف ان کے ذہن میں پختہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ تمام عمر کیلئے سویلین افراد کے ساتھ ملکر برابری اور ٹیم کی شکل میں ساتھ کام کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔ یہ طرزِ بھرتی اور طرزِ تربیت سول ملٹری ہم آہنگی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ (جاری ہے)