صنعتی اور برآمدی شعبہ میں بحرانی کیفیت اور زراعت میں پیداواری اہداف سے دور وطن عزیز میں معاشی بحالی ہی اولین ترجیح ہے۔ اگرچہ جمہوری عمل اور انتخابات کا تسلسل سے انعقاد بھی اہم ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے خصوصی طور پر ملک میں جس قدر سیاسی انتشار پیدا ہوا اس کے اثرات اب ملک کے ہر شعبہ زندگی میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ سیاسی استحکام کیلئے اس وقت بھی صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے معاشی بحالی کے ٹھوس اقدامات یقینی طور پر عین حب الوطنی ہوں گے ۔ اس حوالے سے بعض حلقوں کی طرف سے لازمی طور پر روایتی باتیں ضرور ہوں گی مگر اب یہ ایسا فیصلہ کن موقع ہے کہ پاکستان کے تمام اداروں، سیاسی جماعتوں، مذہبی و شہری حلقوں کو بیک آواز ہوکر کہنا پڑے گا کہ سب سے پہلے معاشی بحالی ضروری ہے۔ کوئی بھی فرد انفرادی یا اجتماعی طور پر انتخابات کا مخالف نہیں، تاہم موجودہ سیاسی افراتفری کے ماحول میں ضروری ہے کہ نئی حکومت لانے سے پہلے ملک میں معاشی بحالی کیلئے کچھ وقت لے لیا جائے۔ ان دو تین برسوں میںٹھوس صنعتی ، زرعی اور کاروباری پالیسیاں لائی جائیں جن پر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ پاکستان اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے اسی بوجھ نے یہاں مہنگائی، معاشی سرگرمیوں میں عدم استحکام اور بے روزگاری بڑھا دی ہے۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 130 بلین ڈالرز کے قریب ہے ان قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کیلئےہر سال دس بلین ڈالرز سے زائد رقم درکار ہوتی ہے جس کیلئے ایک طرف پاکستان کو مزید قرضے لینا پڑتے ہیں تو دوسری طرف ملک میں ٹیکسوں ، بجلی وگیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے روپے کی قدر روزبروز کم ہورہی ہے جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کی طرف سے ان حالات میں اس وقت تک مہنگائی میں کمی اور معیشت کو بہتر کرنے کے دعوے کرنا ناممکن ہے جب تک کہ معاشی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا مخلوط حکومت کیلئے ملکی مفادات میں سخت فیصلے کرنا مشکل ترین کام ہوتا ہے کیونکہ انہیں ووٹ بینک زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اگر موجودہ صورت حال کو درست سمت میں استوار کرنے کیلئے ایسا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے کہ عام انتخابات سے قبل معاشی اصلاحات نافذ کرکے بگڑی صورت حال بہتر بنائی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ دنیا بھر میں اس وقت تمام ممالک اپنی معیشت کو ترجیحی طور پر دیکھتے ہیں اور ہمیں بھی اس بارے میں بہتر فیصلہ کرنا چاہیے۔ اس کیلئےضروری ہےکہ صنعت، زراعت ، کاروبار اور تجارت کیلئے دس پندرہ سال کی ٹھوس پالیسیاں تشکیل دی جائیں جس پر عملدرآمد کے پہلے دو سال میں ہمارا ہدف تجارتی خسارے کو ختم کرنا ہو۔ برآمدات بڑھانے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیںاور پہلے مرحلے میں درآمدی بل میں اضافہ کا باعث بننے والی زرعی اجناس کی مقامی کاشت اور پیداوار کا حصول ہونا چاہئے ان میں خوردنی تیل ، دالوں، کپاس ، چائے کی پتی، پھلوں ، سبزیوں کی کاشت شامل ہے۔ زراعت سے جڑی پیداوار کا ہدف پورا کرنے سے پاکستان آٹھ سے دس بلین ڈالرز کا زرمبادلہ بچانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ یہ ہدف مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔