(گزشتہ سے پیوستہ )
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مسلح افواج میں افسران کی بھرتی بشمول لڑاکا آرمز ،چار سالہ یونیورسٹی ڈگری کے حصول کے بعد کی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ایسے افسران ایک نسبتاً پختہ ذہن کے ساتھ فوج کی سروس کو جوائن کریں گے اور ان کا اپنے سویلین یونیورسٹی کے ساتھیوں سے ایک پختہ عمر میں مل جل کر پڑھنے اور کام کرنے کا تجربہ ہوگا۔ ایسی بنیاد کے ساتھ ان میں سویلین افراد کے بارے میں منفی تاثرات اور جذبات پروان چڑھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس طرح ریاستی اور سیاسی امور پر سول ملٹری ہم آہنگی پیدا کرنا آسان اور ممکن رہے گا۔ یونیورسٹی کے دوران ایسے مضبوط دوستی کے رشتے بنتے ہیں جو تمام زندگی قائم رہتے ہیں۔
مینجمنٹ ٹریننگ کورسز میں اختلاط
تمام بنیادی ٹریننگ اکیڈمیوں اور مخصوص تربیتی انسٹیٹیوٹس اور اسکولوں کو چھوڑ کر مسلح افواج ، بیوروکریسی اور پولیس کے تمام اسٹاف کالج ، مینجمنٹ اور نیشنل سیکورٹی کے ٹریننگ کورسز (جونیئر ، مڈ لیول اور سینئر کورسز) میں تمام اداروں کے ٹریننگ / ٹیچنگ اسکول / کالج / انسٹیٹیوٹ کو ایک معیارِ تعلیم اور نصاب پر لا کر ہر کورس میں آرمی ، نیوی ، ایئر فورس ، پولیس ، مرکزی سول سروس ، صوبائی سول سروس ، یونیورسٹی اساتذہ اور پرائیویٹ سیکٹر کے افراد پر مشتمل ٹریننگ بیچ بنایا جائے۔ اس مشترکہ ٹریننگ کا فائدہ یہ ہو گا سول اور ملٹری دونوں کے افراد میں سوچ کے انداز میں یکسانیت لائی جا سکے گی اور قومی و ملکی مسائل میں دونوں میں مل کر کام کرنے کا جذبہ اور عملی تجربہ ہو گا۔تمام مینجمنٹ کورسز میں مسلح افواج کے افسران کا تناسب 50فیصد ہو اور اس کے علاوہ 25فیصد افسران سول بیوروکریسی اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے افسران ہوں جبکہ 20فیصد یونیورسٹی کے اساتذہ اور بقیہ 5فیصد عام شہریوں میں سے ہوں گے۔ 20 فیصد یونیورسٹی اساتذہ کا 3/4 سرکاری جامعات میں سے ہو اور 1/4 نجی شعبہ کی جامعات میں سے ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس تجویز پر عمل درآمد سے ہر سال ایک ہزار کے لگ بھگ سول اور ملٹری پارٹنر افراد کا کیڈر تیار ہو سکے گا۔
یونیورسٹیوں میں لازمی فوجی تربیت
اس حوالے سے نیشنل کیڈٹ کورپس (NCC) کا تجربہ جو کہ لگ بھگ پچاس سال پہلے شروع ہوا تھا اور کوئی بیس سال قبل ایک ناکام تجربہ کے طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ اس سے سبق سیکھ کر ایک بہتر طریقے سے یہ تربیتی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اول تو گیارہویں اور بارہویں کلاسوں کے بجائے چار سالہ یونیورسٹی ڈگری کے آخری دو سال میں اس پروگرام کو کرانا زیادہ موزوں رہے گا۔ اس وقت تک طالب علموں کی سوچ میں اچھی خاصی سنجیدگی آ چکی ہوتی ہے۔راقم الحروف کا مشاہدہ تھا کہ NCC کی تربیت دینے کیلئے دو چار فوجی اہلکاروں کی ایک ٹولی کالج کے سینکڑوں شرارتی طالب علموں کے درمیان متعین کی جاتی تھی۔ سینکڑوں غیر سنجیدہ اور شرارتی بچوں کے درمیان یہ چند اہلکارپریشان ہو کر بالآخر کامیاب ٹریننگ کرانے سے ناامید ہو جاتے تھے۔ راقم الحروف کو امریکہ میں زمانہ طالب علمی میں ایک پڑوسی ملک کے طالب علم سے ایک مکالمہ یاد ہے۔ جب اس نے سوال پوچھا کہ کیا تمہارے ملک میں NCC ہوتی تھی؟ تو راقم نے جواب دیا کہ ہاں ہوتی تھی اور اس میں بڑا مزا آتا تھا اور بڑی شرارتیں ہوتی تھیں۔ اس پر پڑوسی ملک کے فرد نے بتایا کہ ان کے ملک میں بھی NCC ٹریننگ ہوتی تھی اور بہت سخت ٹریننگ دی جاتی تھی کالج کے تین چار لڑکوں کی ایک ٹولی کو چند ہفتوں کیلئے سینکڑوں فوجیوں کی ایک یونٹ میں بھیج دیا جاتا تھا۔ یوں بہ مصداق ’من کان نمک نمک باشد‘ یعنی نمک کی کان میں جو کچھ جاتا ہے نمک ہی بن جاتا ہے۔ یہ ایک بہتر طریقہ ہے کہ تھوڑے سے سویلین طلبا کو بہت سارے فوجیوں کے درمیان ٹریننگ کیلئےچھوڑ دیا جائے۔ یوں کامیابی سے ان کی درست طور پر ٹریننگ ہو جائے گی۔
دنیاوی حالات سے ناآشنا لوگ ان تجاویز کو یا تو ناقابل عمل کہیں گے اور کچھ ان کو معاشرے کو مزید عسکریت پسند بنانے کی ایک اور کوشش کہیں گے۔
اولالذکر افراد سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ بقا کی حس ناگزیریت میں وہ کچھ کر دکھاتی ہے جو عام طور پر ناممکن لگ رہا ہوتا ہے۔ بقول اقبال:
جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر ِ روح الامیں پیدا
مملکت خداداد پاکستان کا ایک ایٹمی قوت بن جانا بھی ناممکنات میں سے تھا اور غیر منقسم ہندوستان کے آخری برطانوی کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل کلاڈنے تو اپنے 1946 کے مقالہ میں تحریری طور پر برطانوی حکومت کو یہاں تک کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کا پاکستان کبھی بھی ایٹمی صلاحیت نہیں حاصل کر پائے گا‘‘۔ اس کے باوجود اپنی بقا اور چھ گنا بڑے دشمن سے دفاع کیلئے اس ملک کے لوگوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
موخرالذکر معترضین سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ جمہوریتیں اپنے ملک میں تمام آبادی کی لازمی فوجی تربیت کیلئےیونیورسٹیوں میں فوجی تربیت کے سیٹ اپ شدومد سے قائم کرتی ہیں۔ اس حوالے سے مثال کے طور پر ذکر کر سکتے ہیں کہ اگرچہ سوئٹزرلینڈ میں کوئی کل وقتی فوج نہیں ہے لیکن ہر سوئس باشندےکیلئے فوجی تربیت لینا اور ہر تھوڑے عرصہ کے بعد ریفریشر ٹریننگ لینا لازمی ہے تاکہ جنگ کی صورت میں ہر سوئس باشندہ اپنی مادر وطن کے دفاع کا فریضہ سرانجام دے سکے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تمام بڑی پبلک جامعات میں ریزروڈ آفیسر ٹریننگ کور (ROTC) کے نام سے فوجی ٹریننگ کے سیٹ اپ کام کر رہے ہیں۔ یہ ROTC آرمی ، نیوی اور ایئر فورس کیلئے الگ الگ بھی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبا و طالبات کیلئے یہ ٹریننگ لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہو گی۔ بقول اقبال:
پلٹنا ، جھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
وگرنہ تو:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد