ہر سال کی طرح قوم ایک مرتبہ پھر آزادی کا جشن بڑے جوش وجذبے سے منارہی ہے، ہر طرف خوبصورت قومی پرچم لہرارہے ہیں ،بڑی بڑی عمارتوں پر چراغاں ہے۔ نوجوانوں نے قومی پرچم کی طرز پر بنے لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں،جگہ جگہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقاریب کا اہتمام کیا جارہا ہے ،گلی محلے اور شہر ہر جانب ایک قومی تہوار کا دلکش منظر دکھائی د ے رہا ہےیہ خوشی ، جشن اور شادمانی اس دن کی یاد میں ہےجس دن برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک آزاد اور علیحدہ ریاست حاصل ہوئی کہ جس میں وہ اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ بلاشُبہ وطن عزیز کا معرض وجود میں آنا کسی اچنبھے سے کم نہیں یہ کوئی آسان کام نہیں تھا مگر دست بستہ سلام ہے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی چٹان سے مضبوط ہمت، آسمانوں سے بلند حوصلے، سمند ر سے گہری لگن اور سورج کی کرنوں کی مانند عیاں نیک نیتی کو کہ جس نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ قائد نے یہ ثابت کردیا کہ اگر نیت ٹھیک اور ارادہ مُصمم ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے دیگر رفقاء کے ہمراہ مسلمانان ہندکے الگ وطن کے حصول کا مقدمہ ہر محاذ پر کئی دہائیوں تک بڑی جانفشانی سے لڑا اور آخر کار غلامی کی اندھیری رات ختم ہوگئی اور آزادی کی صبح کا سورج طلوع ہوا۔
میرا قائد اس قوم کو دنیا کے ہر میدان میں آگے بڑھتا اور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا تھا، وہ یک اچھے کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ،خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا ،اُسے ذاتی طور پر کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی وہ چاہتا تو خاموشی سے اپنی زندگی ہی میںمگن اور الگ تھلگ رہ کر اپنا وقت اچھے اندازسے گزار سکتا تھامگر اس مرد قلندر کے دل و دماغ اور ضمیر کو یہ گوارہ نہ تھا کہ مسلمان بے یارو مددگار ہوکر ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ میرے قائد نے اپنا آرام ،سکون، صحت اور جوانی سبھی کچھ ہمارے لئے قربان کردیا۔ یہ وطن عزیز دنیا کے نقشے پر تو آگیا مگر اس کو پہلے ہی دن سے بد ترین مسائل کا سامنا تھا ، وسائل نام کی کوئی چیز نہ تھی قائد نے اپنی گرتی ہوئی صحت کی ذرا پروا نہ کی ،افسوس صد افسوس کہ محض ایک سال بعد ہی یہ عظیم محسن اللّٰہ کو پیارا ہوگیا اور یہ قوم یتیم ہوگئی۔قائد کے بعد اس ملک کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں تھی اس گزرے عرصہ میں اگرچہ ہم نے کئی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور بعض شعبوں میں کچھ بہتری آئی ہے مگر ابھی بہت کچھ ہونا اور کرنا باقی ہے اس ملک میں کیا کچھ نہیں تھا۔ ہر طرح کا موسم، پہاڑ، دریا، سمندر ، گلیشئرز، بے شمار معدنیات ، گیس ، تیل ، نمک کی کانیں ، ا ن گنت قدرتی وسائل اور دنیا کی سب سے بہترین زرعی زمینیں، مگر آج ہماری حالت یہ ہے کہ پوری آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں،عوام بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں، بے شمار علاقے بجلی اور گیس کی سہولتوں سے ناآشنا ہیں، تعلیم یافتہ بے چارے بے روزگاراور دھکے کھا رہے ہیں، جو انڈسٹری لگی تھی وہ بند ہوتی جارہی ہے، صنعت کا پہیہ زنگ آلود ہورہا ہے، قوم غربت کی آخری حد کی جانب رواں دواں ہے سرکاری ادارے تباہی اور بدحالی کی تصویر پیش کررہے ہیں، مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقے کو بری طرح جکڑ رکھا ہے اشرافیہ اور مراعات یافتگان سرکاری وسائل پر خوشحال ہورہے ہیں، بد عنوانی اور اقرباء پروری نے اس قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، رشوت ، چوربازاری ، ذخیرہ اندوزی نے ملک کوبہت شدید نقصان پہنچایا ہے اس سے زیادہ بدبختی اور کیا ہوگی کہ کوئی اور کسی بھی قسم کی چیز خالص اور ملاوٹ سے پاک اس قوم کو دستیاب نہیںہے ، دودھ، پانی، کھانے کی اشیاء حتیٰ کہ ادویات بھی ملاوٹ زدہ ہیں ۔آج ملک قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دبا ہوا ہے اور اس مرض سے نکلنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آرہی۔ ہوس اقتدار نے اس ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ لوگ جھوٹ ، دھوکے، فراڈ اور رشوت کو جرم نہیں بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں، ناکامیوں اور ان کی حقیقی وجوہات کا جائزہ نہیں لینا چاہیے ؟کیا ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دنیا کیسے ترقی کررہی ہے اورہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں، اصل وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہ بنا بنایا ملک مل گیا جس میں ہمارے آبائو اجداد کا خون پسینہ تو ضرورشامل ہے مگر ہمارا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے قائد کے وطن کی قدر نہیں کی ،ہم نے اس نعمت کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں۔ کیا قائد اس طرح کا وطن چاہتے تھے، کیا وہ قوم کو اس حال میں دیکھنا چاہتے تھے !نہیں نہیں ہرگز نہیں، کیا قائد کی روح ہم سے خوش ہوگی؟ جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہم نے کیا وہ ہرگز لائق تحسین نہیں مگر ہمارے گناہ اس صورت میں رب تعالیٰ بھی معاف فرمادے گاکہ جب ہم اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگ کر اپنی اصلاح کرلیں اور اس وطن عزیز کے ساتھ سچی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کو بچانے کی خاطر اور قربانی دینے کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی کمر کس لیں ۔سینے پر قومی پرچم لگانا کافی نہیں بلکہ دل میں اس ملک کی محبت اور احساس بہت ضروری ہے اس ملک کو بچانے کیلئے ہم سب کو خود احتسابی کرنا ہوگی رشوت، بدعنوانی اقرباء پروری اور بدانتظامی کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنا ہوگا آج دنیا گورنینس کی بنیاد پر چل رہی ہے ہمیں دنیا میں موجود کامیاب گورنینس کے بہترین ماڈل اپنانا ہوں گے آزادی کاجشن منانے کا مزہ تو تب آئے کہ جب یہ ملک مسائل اور مشکلات کے بھنور سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آکھڑا ہو۔ ملک ہم سب سے قربانی اور اپنا حق مانگ رہاہے۔سچی بات تویہ ہے کہ اے قائد ! ہم تجھ سے شرمندہ ہیں۔