7 اگست 1947ء کے تاریخ ساز دن جب قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ کراچی کے فوجی اڈے پر طیارے سے نیچے قدم رکھا تو فضا’’قائد اعظم زندہ باد ۔۔۔پاکستان زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ میکلوڈروڈ(موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ) سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے رواں دواں تھا۔ محبوب قائد کی طویل مدت کے بعد اپنی جائے پیدائش آمد قابلِ دید تھی۔ خوشی کے ساتھ مسرت و تشکر سے بھیگی آنکھوں کو کیمروں نے محفوظ کرلیا۔
اس کے بعد قائد اعظم تادمِ مرگ تعمیرِ وطن کی شب و روز خدمات میں یوں جت گئے کہ نہ دن کا ہوش رہا اور نہ رات کی فکر۔ اس شدید محنت نے تھکن سے دوچار قائد کے آہنی حوصلے کو کسی طور دھیما نہ پڑنے دیا۔ قائد اعظم احترامِ انسانیت کے علم بردار رہے۔ یومِ آزادی کے مہینے یعنی اگست 1947ء کے دوران قائداعظم کے خطابات سن کر آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ پاکستان کو اسلامی دنیا کے ذمہ دار ملک کا درجہ دلوانے کے حق میں تھے۔ ان کے بصیرت افروز خیالات نے بھارت کی وہ گھناؤنی سازش ناکام بنادی، جس کے تحت وہ پاکستان کو عالمی برادری میں متعصب ملک مشہور کرانا چاہتا تھا۔ یہ قائد اعظم کی بالغ نظری تھی،جس نے نفرت کے آلاؤ کو گلزارِ ابراہیم میں تبدیل کردیا۔
11اگست کو دستور ساز اسمبلی میں پاکستان کےخدوخال واضح کرتے ہوئے قائد اعظم نے پاکستانی شہریوں (اکثریت و اقلیت) کے مساوی حقوق اور دوستانہ بین الاقوامی تعلقات کے فروغ کی بات کی۔
’’آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاستِ پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں، کیوں کہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی عقیدے کا معاملہ ہے۔ بلکہ ریاست کے باشندے ہونے کی بنا پر سیاسی معنوں میں کہہ رہا ہوں‘‘۔
انھوں نے خطبہ صدارت میں مزید کہا، ’’جو لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ختم کردیں گے، بڑی سخت بھول میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، اِس کی جڑیں مضبوط اور گہری ہیں۔ ہمارے دشمنوں کے اُن خوابوں یا اِرادوں کا نتیجہ جس کی وجہ سے وہ قتل اور خونریزی پر اُتر آتے ہیں، سوائے اِس کے کچھ نہ نکلے گا کہ کچھ معصوم اور بے گناہوں کا خون بہے۔ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے اپنے فرقہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگا رہے ہیں‘‘۔ (کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب،11اگست 1947ء)
14اگست 1947ء کو دنیائے عالم کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائداعظم کو پہلے گورنر جنرل پاکستان کے اختیارات منتقل کیے۔ قائداعظم نے امن و محبت اور رواداری کی تلقین کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ مسلمان ریاست حسنِ سلوک کی اعلیٰ روایات کی پاسدار ہوتی ہے۔
’’میں شاہ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اور میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ہماری سعی ہے کہ ہم پاکستان میں آباد تمام فرقوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ مجھے یقین ہے ہر پاکستانی شہری ہمارے نظریۂ فلاحی خدمت سے تحریک
حاصل کرے گا۔ وہ اتحاد و یگانگت کے ساتھ ایسی تمام سیاسی و شہری خصوصیات سے متصف ہو گا، جو ایک قوم کو عظیم بناتی ہے۔ میں (انگریز) حکومت اور افواج میں شامل ان (غیر مسلم) مرد و زن کے جوش و جذبے کی قدر کرتا ہوں، جنھوں نے بہ رضا و رغبت پاکستان کی رضاکارانہ خدمت کرنے کے لیے خود کو پیش کیا۔ ہم انھیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ان کے ساتھ تمام شہریوں کے مانند برابری کا سلوک کیا جائے گا۔اکبر اعظم نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور نیک نیتی کا جو سلوک کیا، وہ کوئی نئی بات نہیں۔
تیرہ صدیاں قبل جب نبی کریم ﷺنے یہود و نصاریٰ کو مفتوح کیا، ان کے ساتھ زبانی نہیں عملی طور پر نہایت شاندار سلوک فرمایا۔اس موقع پر آپﷺ نے کمال درجے کی رواداری کا مظاہرہ فرمایا اور ان کے ایمان و مذہب کی تعظیم فرمائی۔ مسلمانوں نے جہاں بھی حکمرانی کی، ان کا دور انہی انسان دوست اعمال اور عظیم اصولوں سے عبارت ہے۔ ہمیں بھی انہی اصولوں پر عمل کرنا اور ان کے مطابق چلنا ہوگا۔میں سبھی کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے سب ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے‘‘۔ (14اگست 1947ءکو آئین ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریب سے خطاب)
’’آزاد و خودمختار پاکستان کے قیام کے فوری بعد یہ ہماری پہلی عید ہے۔ آج کے دن پوری اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے مسرت و افتخار کا دن ہے۔اس خاص دن پر تمام مسلم امہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ اسلامی ثقافت و اقدار کی نشاۃ ثانیہ کا یہ سفر جاری رہے گا۔ میں اللہ سے دعاگو ہوں کہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں عظیم قوم کی حیثیت سے اُجاگر کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے مگر یہ اختتام کی ابتدا ہے۔
آگے عظیم ذمہ داریاں ہماری منتظر ہیں۔ اصل کام کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ صلاحیتوں سے مالا مال مسلمانوں کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں، وہ یہ بھاری بوجھ اپنے توانا کندھوں پر اٹھا لیں گے اور ملک کو درپیش رکاوٹوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے‘‘۔ (18اگست 1947ء کو پاکستان میں پہلی عید کے موقع پر قوم کے نام پیغام)
’’قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے‘‘۔ (آزادی پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قوم کے نام پیغام،14اگست 1948ء )