برطانوی سامراج کی سازشوں اور کانگریس کی چالوں کے سامنے برصغیر کے مسلمانوں نے ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیا اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا قیام یقینی بنایا، جو کہ ان کی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ایک الگ قوم کا خواب دیکھا لیکن تقدیر نے اس خواب کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ذریعے حقیقت بنایا۔ انھوں نے اخلاص،بلند کردار، عزم، لگن، بہادری اور دوقومی نظریے کے اصولوں کے لیے غیر متزلزل وابستگی کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک مربوط قوم میں ڈھالا اور بالآخر پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔
قوموں کی زندگی میں قومی دن اپنے پسِ منظر کو اجاگر کرنے، ان کی اہمیت کو واضح کرنے اور نئی نسل کو ماضی کے اہم سنگ ہائے میل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے نہایت مفید ہوتے ہیں۔ گاہے بگاہے ایسے ایام تہواروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
آج جب ہم اپنی آزادی کی 76 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ برصغیر میں اپنے بھائیوں کے لیے الگ وطن کے لیے مسلم رہنماؤں کے مطالبے کے پس پردہ محرکات کو سمجھتے ہوئے، تاریخ کے کے اوراق پلٹ کر دیکھیں کہ آخر انھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیوں کیا تھا؟ مطالعے کے مطابق مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کی مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات تھیں:
٭ صدیوں ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں کی حکومت رہی، جہاں ہندو (جو برصغیر میں اکثریت میں تھے) ایک طویل عرصہ تک مسلمان بادشاہوں کی رعایا رہے تھے۔ انھوں نے بعدازاں انگریزوں کی قربت حاصل کرلی۔ انگریزوں نے بھی حکومت چونکہ مسلمانوں سے چھینی تھی اس لیے زیادہ ردعمل کی توقع بھی ان کی طرف سے ہی تھی۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی قربت اس پس منظر میں قابل فہم ہے۔
٭ مسلمانوں کو حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ مجموعی طور پر وسائل زندگی کے اعتبار سے بھی بہت کمزور کردیا گیا تھا۔
٭ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف کئی بڑے بڑے معرکے مسلمانوں ہی نے لڑے تھے، خاص طور پر 1857ء کی جنگ آزادی تو مسلمانوں نے ہی برپا کی تھی۔
٭ مغرب سے آنے والا جمہوریت کا تصور کانگریس کو خوب بھاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برطانوی تصورِ جمہوریت کی مدد سے وہ برصغیر پر اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے زیرِ اقتدار رکھ سکتے ہیں۔
٭ مسلمان بھی برصغیر میں کوئی معمولی اقلیت نہ تھے۔ اپنے ماضی کی تاریخ کے زیراثر وہ اقلیت کا کردار قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں اُس وقت تقریباً 40فیصد مسلمان آباد تھے۔ بعض صوبوں میں انھیں اکثریت بھی حاصل تھی۔
٭ مسلمان محسوس کرتے تھے کہ انھیں معاشی اور سماجی طور پر جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔
٭ مسلمانوں کو یہ بھی احساس تھا، جو ہندوستان کے طول وعرض میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں درست بھی تھا کہ ہندو اپنی اجتماعی اکثریت اور مذہبی تصورات کی بنیاد پر مسلمانوں سے تعصب برتتے ہیں اور انھیں بہت سے مقامات پر اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
٭ مسلمانوں کے ممتاز رہنماؤں، جن میں قائداعظم محمد علی جناح بھی شامل تھے، نے پہلے مرحلے پر ہندوستان کے اتحاد اور مسلم ہندو یگانگت پر زور دیا اور ہندوستان کی وحدت کی بقا کے لیے آواز اٹھائی لیکن مسلسل تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کانگریس کی قیادت مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل میں کانگریس نے وہاں بھی مسلمانوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کے لیے سو طرح کے جتن کیے۔
یہی وہ اہم اور بنیادی وجوہات تھیں، جس کے بعد مسلمان رہنماؤں نے آخر کار الگ مسلم ریاست کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز ایک آزاد خود مختار ریاست کا تصور اختیار کرتے کرتے مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ اس سے پہلے اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی داخلی خود مختاری کی تجویز بھی زیر غور رہی۔ تاہم جب 23مارچ1940ء کو قراردادِ پاکستان منظورہوئی تو برصغیر کے ہرمسلمان نے اسے اپنے دل کی آواز سمجھا۔
یوں تو تحریک آزادی (1857ء سے 14اگست 1947ء تک) کا ہر دن اور ہر لحظہ ہی ہماری تاریخی جدو جہد کا یادگار با ب ہے مگر 23مارچ 1940ء، 3جون1947ء اور14اگست 1947ء ایسے ایام ہیں جو ہماری قومی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں اور ان کا پسِ منظر قوم کے بچے بچے کے ذہن میں ہونا چاہیے۔
یہی وہ لمحات تھے جب برصغیر کی تاریخ ایک اہم ترین موڑ پر پہنچی، تحریک پاکستان کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو ئی اور فضا میں سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ قرار داد پاکستان 23مارچ1940ء کو منظور ہوئی تھی، اس دن سے 3جون1947ء اور14 اگست 1947ء تک کا عرصہ قیام پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
3جون 1947ء وہ تاریخ ساز دن ہے جب مسلمانانِ برصغیر کی جدو جہد رنگ لائی اور برطانیہ کے تعینات کردہ آخری وائسرائے ہند(نائب السلطنت) ایڈمرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہندکی تاریخ(یعنی 14اگست 1947ء ) کا باقاعدہ اعلان کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے آل انڈیا ریڈیو پر تقسیم ہند کے باقاعدہ اعلان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے ریڈیو پر تقریر کی اور آخر میں بے پناہ جذبے اور ولولے سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا یا جو مسلمانان برصغیر کے دل کی آواز بن گیا اور فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی چلی گئی۔
برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد لارڈ ماؤنٹ بیٹن جنگ عظیم دو م میں جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی افواج کا سپریم کمانڈر رہ چکا تھا ۔ اس کا شمار دنیا کے بہترین جرنیلوں میں ہوتا تھا ۔ اسے برطانیہ کی طرف سے آخری وائسرائے ہند کی حیثیت سے 22مارچ 1947ء کو ہندوستان میں تعینات کیا گیا۔اس نے آتے ہی ہندوستان کی سیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا، وہ کانگریس کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ اس نے پہلے پہل صرف کانگریس کی قیادت سے ملاقاتیں کیں جبکہ قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ اس نے تقریباً دو ہفتے بعد ملاقات کی۔
در اصل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا منصوبہ تحریک پاکستان کوسبوتاژ کرنا تھا۔ اسے اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا لیکن محمد علی جناح سے ملاقات کے بعد اس کی یہ غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ محمد علی جناح جیسے قائد کے ہوتے ہوئے کوئی بھی پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے سے نہیں روک سکتا۔کئی برس بعد اس نے اس بات کا اقرار بھی کیا تھا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے مستقبل کے حوالے سے پُر امید تھا لیکن قائداعظم سے ملاقات کے بعد اس کا یقین متزلز ل ہوگیا۔
ماؤنٹ بیٹن کی آمد سے پیشتر کانگریس نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے حق میں قرارداد پاس کر لی تھی ۔یہ وہ موقع تھا جب کانگریس کے لیڈر تحریک پاکستان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیانات دے رہے تھے۔ برصغیر کے ہندوؤں میں ایک شور وغوغا مچا ہوا تھا اور وہ قیام پاکستان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ جواہر لال نہرو اوردوسرے کانگریسی لیڈر تواتر کے ساتھ ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کا راگ الاپ رہے تھے اور کہتے تھے کہ کانگریس کی پنجاب اور بنگال کی تقسیم والی قرار داد سے ملک کی تقسیم کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ جواہر لال نہرو کا کہنا تھاکہ تقسیم ہند کی تجویز برطانوی حکومت خود پیش کرے تو ہم اس کی حمایت کر سکتے ہیں لیکن اپنی زبان سے ہم کبھی بھی تقسیم ملک کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
نہرو اورلارڈ ماؤنٹ بیٹن میں شملہ کے مقام پر طویل ملاقاتیں ہوئیں، جن سے قائد اعظم محمد علی جناح کو بے خبر رکھا گیا۔ شملہ میں نہرو خاندان کی موجودگی سے محمد علی جناح کو یقین ہو گیا تھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن مکمل طورپر کانگریس کا ہمنوا ہو کر مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے لیکن محمد علی جناح ان تمام سازشوں کے باوجود پُرعزم انداز میں اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ کانگریسی لیڈر تقسیم ہند کے مخالف تھے اورلارڈ ماؤنٹ بیٹن ان کی بھرپور حمایت کر رہا تھا لیکن آخر کار مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے مطالبے کے آگے یہ سب لو گ بے بس اور لاچار ہوگئے۔
ان حالات میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن مئی 1947ءمیں برطانیہ گیا اور وزیراعظم لارڈ ایٹلی اور دوسرے برطانوی لیڈروں سے بات چیت کے بعد ہندوستان واپس آکر طویل مذاکرات کیے اور ہندوستان کے اہم لیڈروں کی ایک اہم کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس کے شرکاء میں پنڈت جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح، سردار پٹیل، اچاریہ کرپلانی، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور سردار بلدیو سنگھ قابل ذکر ہیں۔ اسی کانفرنس میں ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا، جس کا اعلان 3جون 1947ءکو کیا گیا۔ اس کے اہم نکات ذیل میں درج ہیں:
٭ برِصغیر میں دو الگ الگ مملکتیں قائم کر دی جائیں، جو شروع میں نوآبادیاتی حیثیت کی حامل ہوں گی۔
٭ پنجاب اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور حدبندی کمیشن بھی مقرر کیے جائیں گے۔
٭ سندھ اور آسام کے مستقبل کا فیصلہ ان صوبوں کی اسمبلیاں کریں گی۔
٭ صوبہ سرحد اور آسام کے ضلع میں استصواب رائے کرایا جائے گا، جس کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ وہاں کے باشندے کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
٭ ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ہر دو مملکتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔
٭ برصغیر کی مسلح افواج اور مشترکہ اثاثوں کی تقسیم کر دی جائے گی۔
اس منصوبے پر ابتدائی ردِعمل دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا، ’’یہ تو واضح ہے کہ یہ منصوبہ کئی اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا اور اس میں کچھ ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ یا محسوس نہیں کر سکتے کہ ہم ان سے مطمئن ہیں یا اتفاق کرتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ انگریز حکومت کی طرف سے جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے، ہم نے اسے سمجھوتے کے طور پر قبول کرنا ہے یا سیٹلمنٹ۔ میں خود سے یہ فیصلہ نہیں کروں گا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل ہی اس پر ہمارے آئین اور روایات کے مطابق حتمی فیصلہ کر سکتی ہے، جس کا اجلاس پیر 9جون کو طلب کیا گیا ہے۔ لیکن اب تک جو میں سمجھ سکا ہوں دلّی میں مسلم لیگ کے حلقے پُرامید ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی حتمی فیصلے سے پہلے اس منصوبے کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر غور کیا جانا چاہیے‘‘۔ اس حوالے سے قائد اعظم کا مزید کہنا تھا، ’’میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرے خیال میں وائسرائے نے کئی قوتوں کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے اور میرا ان کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ انصاف اور غیر جانبداری کے جذبے سے کام کر رہے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا کام آسان بنائیں‘‘۔
غالباً قائد اعظم کی اسی سوچ کے پیشِ نظر مسلم لیگی قیادت نے بالآخر تقسیم ہند کے اس منصوبے کو قبول کر لیا، جس کا اعلان آل انڈیا ریڈیو سے نشری تقریروں کے ذریعے کیا گیا۔ یوں پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور 14اگست 1947ءکو اس کا وجود عمل میں آ گیا۔