• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم کی سری: یورپ کے سیر سپاٹے سے متعلق یہ آخری کالم ہے ۔یورپ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک ملک دیکھ لیا تو سمجھیں پورا یورپ دیکھ لیا ۔ سارایورپ صاف ستھرا ہے، شہروں کے بیچوں بیچ دریا بہتے ہیں، کہیں کہیں برف پوش چوٹیاں ہیں، شہروں میں عجائب گھر ہیں، پر شکوہ گرجا گھر ہیں، تاریخی عمارتیں ہیں،سڑک کے کنارے خوبصورت ریستوران اور کیفے بنے ہوتے ہیں، ٹریفک کا نظام ایک جیسا ہے،پبلک ٹرانسپورٹ ہر جگہ ملتی ہے،قانون کی عملداری یکساں ہے،معیشت مضبوط ہے ،سوشل سیکورٹی کے تحت لوگوں کو وظیفہ اور پنشن ملتی ہے،مقامی حکومتوں کا نظام ایسا ہے کہ لوگ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، مرکزی حکومت کے اختیارات محدود ہیں، سربراہ مملکت اور وزرائے اعظم عام لوگوں کی طرح رہتے ہیں، کرو فر نہیں دکھاتے اور اگر کوئی وزیر اعظم کرپٹ نکل بھی آئے تو اِس کو بنیاد بنا کر وہاں مارشل لا نہیں لگتا۔جرمنی میں چند دن رہ کر احساس ہوا کہ یہ ملک یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ لبرل ہے۔جرمنی اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے ، دیگر ممالک میں سوئٹزر لینڈ،آسٹریا اور نیدر لینڈ شامل ہیں۔ناروے نے اب اِس پر پابندی لگادی ہے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی عورت اِس کام کی دعوت دیتی ہوئی پائی جاتی ہے تو اسے گرفتار نہیں کیا جاتا البتہ مرد اگر دعوت قبول کرلے اور پکڑا جائے تو اُس پر مقدمہ بن جاتا ہے۔جرمنی میں نہ صرف جسم فروشی کے کلب موجود ہیں بلکہ برلن میں ایسے کلب بھی ہیں جو مخصوص لوگوں کیلئے ہیں ، یہ عجیب و غریب نوعیت کے کلب ہیں، یہاں داخلے کیلئے مخصوص لباس ضرور ی ہے ، کم از کم آپ نے سیاہ رنگ کا پینٹ کوٹ اور شرٹ پہنی ہو،آپ جینز یا ٹی شرٹ پہن کر نہیں جا سکتے۔ اِن کلبوں میں عموماً LGBT سے تعلق رکھنے والے افراد جاتے ہیں اوراِن کی حرکتیں ایسی عجیب و غریب ہوتی ہیں کہ بندہ چکرا کر رہ جاتا ہے۔کوئی کسی کے گلے میں زنجیر باندھ کر اسے نچوارہا ہے تو کوئی پورے جسم پرفقط نقش و نگار بنا کر گھوم رہا ہے ۔میں نے اسے عجیب تو کہہ دیا ہے مگر برلن میں اسے عجیب نہیں سمجھا جاتا ،یہاں لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی ذات کا اظہار جس انداز میں چاہیں کریں مگر اُس سے کسی دوسرے کی ذات متاثر نہ ہو۔اِس کے علاوہ بھی برلن میں مخصوص نوعیت کے کچھ کلب ہیں جن کے بارے میں یہاں لکھا نہیں جا سکتا ،خواہش مند خواتین و حضرات اُس کیلئے علیحدگی میں وقت لیں، اُن کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا!یورپی ممالک میں ایک مشترک بات جو میں نے دیکھی وہ عورت کا تحفظ ہے ، بظاہر یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ ایک طرف تو یہاں جسم فروشی کے کلب موجود ہیں جہاں عورت کی تذلیل کی جاتی ہے اور دوسری طرف عورت کے تحفظ اور اُس کی تکریم کا دعویٰ بھی کیاجاتا ہے۔جہاں تک اِن کلبوں کی بات ہے تو پولیس گاہے بگاہے اِن کلبوں میں کام کرنے والی عورتوں سے پوچھتی رہتی ہے کہ کہیں انہیں زبردستی اِس کام کیلئے مجبور تو نہیں کیا جا رہا، اگر وہ اشارتاً بھی کہہ دیں کہ ایسا ہے تو پھر کلب کےمالک کی خیر نہیں ۔کچھ عرصہ پہلے برلن کے ایسے ہی ایک کلب میں فائرنگ کا واقعہ ہوا، پولیس نے تفتیش کیلئے وہاں کام کرنے والی عورت کو گواہی کیلئے بلایا، اُس نے گواہی دی اور پھر اسے مکمل تحفظ دے کر اُس کی رہائش گاہ تبدیل کر دی گئی، کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ اسے ہاتھ لگا دے۔اسی طرح اگر کوئی عورت پولیس کو فون کرکے فقط یہ کہہ دے کہ فلاں شخص نے اُس سے زبردستی کی کوشش کی ہے تو وہ شخص پہلے گرفتار ہوگا ، باقی بات بعد میں ہوگی۔جرمنی ،مہاجرین کیلئے جنت سے کم نہیں ،یوکرین کی جنگ کے بعد یہاں پندرہ لاکھ یوکرینی آئے ہیں، جرمنی نے اُن کیلئے رہائش کا انتظام کیا ہےاور کہیں تو انہیں ہوٹلوں میں بھی ٹھہرایا ہے، انہیں ماہوار وظیفہ ملتا ہے۔برلن کی سب سے مشہوربارچڑیا گھر کے پاس ہے اورچونکہ بار کی بالکونی سے چڑیا گھر کے بندر نظر آتے ہیں اِس لیے اسے منکی بار کہتےہیں۔یہاں کی بار ٹینڈر ایک یوکرینی لڑکی تھی ، اُس نے ہمیں بتایا کہ وہ چند ہفتے پہلے سڑک کے راستے یوکرین گئی تھی، جنگ کی وجہ سے چونکہ ہوائی سفر بند ہے اِس لیےاکثر یوکرینی یہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔اِس سے پہلے شامی مہاجرین کیلئے بھی جرمنی نے اپنی سرحدیں ایسی ہی کھولی تھیں، عام تاثر کے برعکس شامی لوگ بے حد پڑھے لکھے، نفیس ،شائستہ اور خود دار ہیں،بد قسمتی سے خانہ جنگی نے انہیں دربدر کر دیا ہے۔بار کی بات ہوئی ہے تو کچھ حسن جاناں کا ذکر بھی ہوجائے۔اللہ کو جان دینی ہے ،جو حسن پاکستان میں ہے وہ میں نے جرمنی میں نہیں دیکھا۔جرمن خواتین میں نسوانیت نہیں ہے، کچھ کرختگی سی پائی جاتی ہے ،چہرے کے خدو خال بھی سپاٹ سے لگتے ہیں، البتہ انہو ں نے خود کو کافی فِٹ رکھا ہواہے، موٹاپا کم ہی نظر آتا ہے ۔اِس کے برعکس پاکستانی عورتیں بے حدپُر کشش ہیں، خاص طور سے جب وہ کسی شادی میں جانے کیلئے تیار ہوں یا پھر منکی بار جیسے کسی اعلیٰ اور پرُ تعیش ریستوران میں کھانے پر مدعو ہوں، اُس وقت اُن کا حسن اوردلکشی عروج پر ہوتی ہے ۔ یورپ کی ترقی ، خوشحالی اور خوبصورتی میں بظاہر مماثلت نظر آتی ہے اور ایسا ہے بھی مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ خوشحالی دوسری جنگ عظیم کے بعد ہر ملک کو خود بخود مل گئی۔ تیس چالیس سال پہلے تک اِن ممالک میں یہ چکاچوند نظر نہیں آتی تھی، 1999میں جب پاکستان میں موٹر وے بن چکی تھی اُس وقت سویڈن سے ڈنمارک کے ایک جزیرے تک جانے کیلئے لوگ کشتی کا سفر کرتے تھے۔اسی طرح مشرقی یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح چیک ری پبلک بھی سویت یونین کے زیرتسلط رہا، پھر 1989وہاں انقلاب آیا، 1992میں ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے،لیکن آج چیک ری پبلک یورپین یونین کا حصہ ہے،ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے۔

مدعا یہ ہے کہ یورپی ممالک کو ترقی اور خوشحالی کسی نے تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کی کہ یہ لیجیے جناب یہ ترقی ہے ، آج سے یہ آپ کی ہوئی ،بلکہ ہر ملک نے اِس کیلئے علیحدہ جدو جہد کی اور کامیاب ہوا، اور بہت سے ممالک کا حال تو ہم سے بھی برا تھا مگر چونکہ وہ صراط مستقیم پر چلتے رہے سو انہوں نے فلاح پا لی، یہی دنیا کا اصول ہے۔

تازہ ترین