ملک میں اِن دِنوں ایک سائفر کابہت چرچا ہے۔ اس کے سیاسی اور سفارتی پہلوؤں سےصرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں ہم اس کے تیکنیکی پہلوؤں پر بات کرنے کے خواہش مند ہیں۔
عام خط یا مراسلے کےبرعکس سفارتی مراسلت عموما خفیہ زبان میں کی جاتی ہے۔ایسے مراسلے یا خطوط سائفرکہلاتے ہیں۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان میں اہم اور حسّاس نوعیّت کی باتیں یا پیغامات ہوتے ہیں۔ انہیں کوڈیڈ زبان میں لکھنا اور اِنہیں ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔
یوسف الکندی کا بنیادی کردار
تاریخ کے مطابق خفیہ کاری یا اِنکرپشن کی بنیاد تقریبا گیارہ برس قبل ،نویں صدی عیسوی میں بغداد کے ایک عالم اور فلسفی ابو یوسف الکندی نے ڈالی جب انہوں نے قرآنِ کریم کے عربی متن کے بہ غور مطالعے کے دوران حروف کی تکرار میں تغیّرات کا مشاہدہ کیا۔ یورپی زبانوں میں ’’سائفر‘‘ کا لفظ عربی زبان کے لفظ ’’صفر‘‘ سے آیا جس کا مطلب انگریزی میں زیرو ہے۔ صفر کا تصوّر ہی بعد میں سائفر بنا،جس کا مطلب ہے واضح پیغامات کو چھپا نا یا خفیہ نگاری۔
خفیہ نگاری ایسا طریقہ یا تیکنیک ہے جس کے ذریعے کسی پیغام کو اس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے اسے صرف وہ ہی شخص سمجھ سکے جسے پیغام بھیجنا مقصود ہو اور دیگرافرادکےلیےوہ بےمعنی ہو۔الکندی کی کتاب ’’رسالتہ فی استخراج الکتب المعماۃ‘‘ تجزیۂ تعدّد اور شماریات کے موضوع پر پہلی تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب نے شماریات اور رمزیات ،دونوں کے فروغ میں بنیادی کردار اداکیا۔ موجودہ دور میں تجزیۂ تعدّد ایسے اعداد یا کوڈز کو سمجھنے کا بنیادی ذریعہ ہے جن میں بنیادی ،سادہ حروفِ تہجّی پر مشتمل متن استعمال ہوتاہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران خفیہ نگاروں نے کوڈ کو سمجھنےکی اُس روایت کو آگے بڑھایا جسے سب سے پہلے الکندی نے وضع اور تحریر کیا تھا۔
تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ ڈیٹا یا معلومات کو خفیہ کرنے کی کوششوں کا آغاز قدیم بھارت، اور میسوپوٹیمیا میں ہوا تھا، لیکن وہ بہت کام یاب نہیں تھیں۔ تحفظ کا پہلا قابلِ اعتماد نظام قدیم چین میں تیار کیا گیا۔ جسے سفارتی اور عسکری مقاصدکےلیےاستعمال کیاگیا تھا۔ رمزی تراکیب کا قرونِ وسطی میں راستہ ملتا ہے۔ لیکن وہاں پہلے اسےتاجروں اور سفارت کاروں نےاپنایا۔ اس سائنس کا سنہرا دور انیسویں صدی کے آخری حصے میں آیا جب بائنری خفیہ کاری کا طریقہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں استعمال ہوا۔اس سے قبل پہلی عالمی جنگ کے دوران اسے بھرپور لڑائی کے آلے کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔یہ دشمن کی پوسٹس ظاہر کرنے کےلیے بہت اہم بن گیا تھا۔
بعد میں خفیہ نگاری کی بنیادی معلومات کے بارے میں حکومتوں کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں کو غیر موثر کیا گیا ہے، اور1967میں ڈیوڈ کاہن نے’’کوڈبریکر ‘‘ کتاب شایع کی،جس میں اس کی ترقی کی تاریخ،خفیہ نگاری اور cryptanalysis کی بنیادی معلومات تھیں۔
آج کی دنیا میں خفیہ نگاری انٹرنیٹ کی وجہ سے نئی سطح تک پہنچ گئی ہے۔اب اسے بڑے پیمانے شناخت، تصدیق اور ای کامرس کے لین دین میں افراد کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح cryptocurrency، ایک مخصوص ریاضیاتی الگورتھم کے مطابق تیار کی گئی ہے جس پر ریاستوں کی طرف سے کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
رمز نگاری
رمز نگاری یا رمز نویسی Cryptography) دو افراد یا گروہوں کے درمیان کسی تیسرے حریف کی موجودگی میں محفوظ ابلاغ کا ایک خاص طریقۂ کار ہے اور اس طریقۂ کار کے مطالعےکورمزیات (Cryptology) کہتے ہیں۔ سلیس الفاظ میں رمز نگاری وہ طریقہ ہے جو کسی تیسرے فریق یا عام افراد کو ذاتی پیغامات تک رسائی سے روکتا ہے۔
نیز یہ ریاضی کی شاخ اور علمِریاضی کا ایک اہم موضوع بھی ہے۔ اس میں ایسے الخوارزم (الگورتھم)بنائے جاتے ہیں جن کی مدد سے مندرجات کو غیر متعلقہ افراد سے محفوظ رکھا جا سکے۔ محفوظ رکھنے کے لیے عموماً ایک ’’کنجیٔٔ استعمال کی جاتی ہے۔ متن کو وہی شخص پڑھ سکتا ہے جسے کنجی معلوم ہو اور افشا کرنے والےکو الخوارزم کا علم ہو۔
رمز نگاری یونانی زبان کے لفظ (κρυπτός) یعنی kryptós (اردو: رمز) اور (γράφειν) یعنی graphein (اردو: نگاری) کا مجموعہ ہے۔ جس کے معنی چھپا ہوا یا خفیہ ہے۔ اور اردو میں اس کے لیے رمز نگاری یا رمز نویسی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
رمزنگاری کے لیے ریاضی، کمپیوٹر سائنس، الیکٹریکل انجینئرنگ، مواصلاتی سائنس اور طبیعیات کے علوم استعمال کیے جاتے ہیں۔
یوں تو جدید رمز نگاری کے متعدد مواقعِ استعمال ہیں، لیکن زیادہ تر برقیات، اقتصادیا ت، چِپ بیسڈ پیمنٹ کارڈ، ڈیجیٹل کرنسی، کمپیوٹر پاس ورڈ اور عسکری مواصلات کے شعبوں میں استعمال ہوتی ہے۔
اصطلاحاتِ رمز نگاری
1۔ رمز کاری (Encryption):
رمز نگاری میں ’’رمز کاری‘‘ وہ طریقہ ہے جس میں کسی پیغام کی عبارت کو مرموز (encode) کر دیا جاتا ہے۔ سلیس الفاظ میں رمزکاری کا مطلب پیغام کو عام قابلِ فہم الفاظ سے ایسے خفیہ الفاظ میں منتقل کرنا ہےجو متعلقہ فرد یا گروہ کے علاوہ کوئی اور نہ سمجھ سکے۔
2۔ رمز کشائی (Decryption):
رمز نگاری میں ’’رمز کشائی‘‘ وہ طریقہ ہے جس میں کسی پیغام کی عبارت کو غیر مرموز (decode) کر دیا جاتاہے۔ آسان لفظوں میں رمز کشائی کا مطلب کسی ’’مرموز شدہ‘‘ (encoded) پیغام کو عام قابلِ فہم الفاظ میں منتقل کرنا ہے۔ یہ رمز کاری کا الٹ ہے۔
3۔ سائفر (cipher):
رمز نگاری میں سائفر وہ الگورتھم (algorithm) یعنی حساب و شمار کا وہ عمل ہے جو رمز کاری یا رمز کشائی کا عمل سر انجام دیتا ہے۔ یہ ایسے متعین اور واضح اقدامات کا تسلسل ہوتا ہے جسے رمز کاری یا رمز کشائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ با الفاظِ دیگر یہ ایسا ہدایت نامہ ہوتا ہے جو کسی ’’مرموز شدہ‘‘ (encoded) پیغام کو ’’غیر مرموز‘‘ (decode) یا کسی ’’غیر مرموز شدہ‘‘ (decoded) پیغام کو مرموز (encode) کرنے کے کام آتا ہے۔
4 ۔کتاب الرموز (Code book):
’’ عام طور پر ’’کتاب الرموز‘‘ دستاویز کی ایک قسم ہے جو رموز (codes) کو جمع کرنے اور محفوظ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن رمز نگاری میں اس کا مطلب وہ کتاب ہے جس میں رمز کاری اور رمز کشائی کی علامتیں اور نشانات درج ہوں۔ رمز نگار (cryptographer) اسی کتاب کی مدد سے رمز نگاری کا عمل سر انجام دیتا ہے۔
5 ۔سادہ الفاظ (Plaintext):
سادہ الفاظ سے مراد وہ غیر رمز کار شدہ (unencrypted) الفاظ ہیں جن کی رمز کاری کرنا باقی ہے۔ سلیس الفاظ میں ’’سادہ الفاظ‘‘ کسی پیغام کے وہ عام الفاظ ہیں جن کو رمز کاری کے لیے چنا جاتا ہے۔
6 ۔سائفر الفاظ (cyphertext):
رمز نگاری میں ’’سائفر الفاظ‘‘، الگورتھم (جسے سائفر کہتے ہیں) کا استعمال کرتے ہوئے رمز کاری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں رمز کار شدہ (encrypted) یا مرموز شدہ (encoded) الفاظ کو ’’سائفرورڈز ‘‘ کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ایسے الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں جو اپنے اندر اصل مضمون کا مفہوم رکھتے ہیں، لیکن جسے کسی انسان یا کمپیوٹر سے بغیر ’’سائفر (cipher) ‘‘ کے رمز کشائی (encryption) کیے بنا پڑھا نہ جائے۔
7 ۔کلید (Key):
رمز نگاری میں ’’کلید‘‘ معلومات کا وہ ٹکرا ہے جو رمز نگاری میں الگورتھم کے افعال کو متعین کرتا ہے۔ سلیس الفاظ میں کلید الگورتھم کی مدد سے ’’سادہ الفاظ‘‘ کو ’’سائفر الفاظ‘‘ اور ’’سائفر الفاظ‘‘ کو ’’سادہ الفاظ‘‘ میں بدلنے کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ جس طرح چابی کے بناتالا نہیں کھولا جا سکتا اسی طرح رمز نگاری میں ’’ کلید‘‘ کے بغیر رمز کشائی (decryption) نہیں کی جا سکتی۔
قدیم دور میں پیغامات عام طورالفاظ(Text) کی شکل میں لکھےجاتےتھےاس لیے اِنکرپشن کےبعد بھی پیغام الفاظ کی شکل میں ہی رہتا تھا۔ جدید دورمیں خاص طور پر کمپیوٹرکی ایجاد کے بعد الفاظ کےعلاوہ آڈیو، وڈیو اور دیگر طرح کے ڈیٹا پر بھی انکرپشن لگاکر اسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
انکرپشن خود سے بھی کی جاسکتی ہے اور کمپیوٹر کے ذریعے بھی۔ خود سے کرنے کی سب سے پرانی مثال یہ ہے کہ آپ ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف رکھتے ہیں مثلاً: لفظ Cat میں C کی جگہ لکھے G۔۔۔۔۔A کی جگہ لکھے K۔۔۔۔اور T کی جگہ لکھےR،تو لفظ Cat کو جب انکرپٹ کریں گے تو بن جائےگاGkr۔تو بھیجنے والاGkr اپنے میسج میں لکھ کر بھیجے گا اور وصول کرنے والا اسے سیدھا کرکے Cat بنا لے گا۔
اسی طرح سارے حروف تہجی کو الگ الگ ترتیب دینا پھر جہاں آپ نے A لکھنا ہو وہاں آپ K لکھیں اور جس کو پیغام بھیجا ہے اس کو پہلے سے معلوم ہوگا کہ کس حرف کو کس سے بدل کر پھر مجھے میسج کو سیدھا کرکےپڑھنا ہے۔
یہ طریقہ پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہوا تھا اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم میں مشین کے ذریعے انکرپشن کی جاتی تھی، اب کمپیوٹر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی انکرپشن بہت مضبوط اور محفوظ ہوتی ہے اسے آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا۔اس مقصد کے لیے اِنکرپشن الگورتھم استعمال کیے جاتے ہیں۔ لہذا آج کل مختلف اقسام کے انکرپشن الگورتھم استعمال ہورہے ہیں۔
انکرپشن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ جسےپیغام یا جو کچھ بھیج رہے وہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ کیا بھیج رہے ہیں۔ جس طرح پچھلے دور میں ہم کسی کو خط بھیجتے تھےتو راستے میں اس کے پڑھ لیے جانے کا خطرہ موجود رہتاتھا،اسی طرح ہم لینڈ لائن سے بات کرتے تھےتو کبھی ایکس چینج والوں کی آواز آجاتی تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ہماری باتیں سن رہے ہیں یا پھر ہم خود شرارت کرتے اور کسی کیبنٹ میں ٹیلی فون لگا کر لوگوں کی کالز سُن لیتے تھے۔
اسی طرح آج کے دور میں بھی یہ ممکن ہے اور انٹرنیٹ پہ جو کچھ آپ بھیج رہے ہوتے ہیں یا ڈاؤن لوڈ کر رہے ہوتے ہیں یا پھر میسج یاکال کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ انکرپٹیڈ نہ ہوں تو کوئی تیسراشخص یہ معلوم کر سکتا ہے کہ بھیجا ہواڈیٹا کیا ے۔ انٹرنیٹ پر ڈیٹا پیکٹ کی صورت میں ہوتے ہیں جنہیں مختلف نیٹ ورکنگ سافٹ وئیر کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس پیکٹ میں کیا کیا ہے۔
انٹرنیٹ کے درمیان والے اشخاص اسے دیکھ سکتے ہیں، مثلاًآپ کا آئی ایس پی، یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر جو آپ کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے،یا اگر آپ وائی فائی استعمال کر رہے ہوں تو اس راؤٹر کی ایکسس جس کے پاس ہو وہ بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کئی درمیانی پوائنٹ ہیں۔
یہ ایک جانب کا احوال ہے۔ دوسری طرف بھی یہی ہوسکتا ہے۔یہ صرف ایک مثال ہے، آج کل تقریباً سارے ہی میسنجز انکرپشن استعمال کرتے ہیں، کچھ اینڈ ٹو اینڈ یعنی ایک سے دوسرے صارف تک انکرپٹیڈہی رہتے ہیں ۔ درمیان میں کہیں بھی ڈی کرپٹ نہیں ہوتے ہیں۔ اور کچھ صرف ایک اینڈ سے کمپنی سرور تک اور پھر کمپنی سرور سے سامنے والے تک انکرپٹیڈ رہتے ہیں یعنی کمپنی اپنے سرور میں اسے ڈی کرپٹ کرتا ہے۔
ٹیلی گرام نامی سوشل میڈیا ایپ کا عام نارمل چیٹ اس کی مثال ہے۔ یہ انکرپشن کا عمل خود کار ہوتا ہے، یعنی وہ ایپ خودبہ خود آپ کے میسج کو انکرپشن الگورتھم استعمال کر کے کوڈ میں تبدیل کر دیتی ہے۔
مورس کوڈ
مورس کوڈ رابطوں کا ایک بہت آسان نظام ہے جس میں نقطوں اور ڈیش کے بائنری نظام پر مبنی اشارہ ہوتا ہے ،یا اشاروں کی کچھ دوسری متضاد سیریز پر مشتمل ہوتا ہے۔ 1800 کی دہائی کے دوران تیار کیا گیامورس کوڈ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک مقبول اوراستعمال میں رہا۔ اب اسے مواصلات کے زیادہ جدید طریقوں نے بڑی حد تک تبدیل کردیا ہے۔
مورس کوڈ کی ایجاد اسٹیفن مورس نے 1836 میں کی تھی۔ اسے بڑے پیمانے پر قدیم ٹیلی گراف سسٹم کے لیےاستعمال کیا گیا تھا جہاں لائنز اور کیبلز کے ذریعہ مورس کوڈپیغامات پہنچائے جاتے تھے۔ریڈیائی نشریات کے ابتدائی ایام میں مورس کوڈ بھی ابلاغی مواصلاتی ذریعہ تھاجس کے ذریعے ریڈیائی لہروں کو بھیجا جاتا،یہاں تک کہ صوتی ترسیل بھی ممکن ہوجائے۔
اگرچہ اب اسے ابلاغ کے اہم ترین ذریعے کےطور پر وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا جاتا ہے ،لیکن انیسویں صدی میں اور یہاں تک کہ بیسویں ویں صدی کے پہلے نصف کے دوران بھی ، مورس کوڈ انتہائی اہم تھا۔ مثال کے طور پر ، دوسری جنگ عظیم کی فوجی کارروائیوں میں مورس کوڈ کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوا۔
آج کل مورس کوڈ کے زیادہ تر جدید استعمال میں شوقیہ ریڈیو آپریٹرز شامل ہیں جو اپنی سند کے حصے کے طور پر اسے سیکھتے ہیں۔ ان افراد میں سے بہت سے شارٹ ویو وریڈیو کے ذریعہ مورس کوڈ کے ساتھ بات چیت کرتے رہتے ہیں۔بہ صورت دیگر ، مورس کوڈ کافی حد تک متروک ہوچکا ہے۔
مورس کوڈ اور ٹیلی گراف
سیموئل مورس (1791-1872) اور دیگر موجدوں کے ذریعے 1830 اور 1840 کی دہائی میں تیار کردہ ، ٹیلی گراف نے طویل فاصلوں تک مواصلات میں انقلاب برپا کردیاتھا۔ مورس نے جوکوڈ بنایا تھااس کے ذریعہ ٹیلی گراف لائنز کی مدد سے پے چیدہ پیغامات کی ترسیل آسان ہوگئی تھی۔اس نے اسٹیشنز کے درمیان بچھائے گئے تارکے ذریعے بجلی کے سگنل منتقل کرنے کا کام کیا۔
ٹیلی گراف کی ایجاد میں مدد کرنے کے علاوہسی سموئیل مورس نے جو کوڈ تیار کیااس میں انگریزی کے حروف تہجی کے ہر ایک خط پر ڈاٹ اور ڈیش کا ایک سیٹ تفویض کیا اور ٹیلی گراف لائنز کے ذریعے پے چیدہ پیغامات کی آسان ترسیل کی اجازت دی۔ 1844 میں ، مورس نے اپنا پہلا ٹیلی گرافک پیغام واشنگٹن ، ڈی سی سے بالٹی مور ، میری لینڈ 1866 میں بھیجا۔ پھر بحر اوقیانوس کے پار سے ایک ٹیلی گراف لائن یورپ کے لیے بچھائی گئی تھی۔ دراصل اس نے مواصلات کے انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔
ابتدا میں مورس کوڈ جب ٹیلی گراف کے نظام پر منتقل ہوتا تھا تو اسے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر نشان کے طورپر پیش کیا جاتا تھاجس کا ٹیلی گراف آپریٹر انگریزی میں ترجمہ کرتا تھا۔ تاہم آپریٹرز صرف وصول کنندہ کے کلک کو سن کر ہی کوڈ کو سننے اور سمجھنے کے قابل تھے ، لہذا اس کاغذ کو ایک رسیور نے تبدیل کردیا جس نے زیادہ واضح بیپنگ کی آوازیں پیدا کیں۔
ٹیلی گراف کے نظام میں ایک اور بہتری 1874 میں مشہور موجد تھامس الوا ایڈیسن (1847-1931) کے ذریعے کواڈروپلیکس نظام کے تحت آئی، جس نے ایک ہی تار کے ذریعے بہ یک وقت چار پیغامات منتقل کرنے کی اجازت دی۔
ٹیلی گراف کا استعمال معلومات بھیجنے اور وصول کرنے کے تیز اور آسان طریقے کے شوقین افراد نے جلدہی قبول کرلیا۔ برقی ٹیلی گراف نے جنگوں کے پانسے بھی پلٹے اور صحافت کو بھی نئی رفتار بخشی۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر تک ، نئی ٹیکنالوجیز ابھرنا شروع ہوگئیں ، ان میں سے بہت سی ان ہی اصولوں پر مبنی تھیں جو پہلے ٹیلی گراف کے نظام کےلیے تیار کی گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان نئی ٹیکنالوجیزنے ٹیلی گراف کو بہت پیچھے چھوڑدیا۔
اسکاٹش ملکہ کے خفیہ خطوط
خفیہ پیغامات پڑھنے کے ماہر (کرپٹوگرافرز) کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے سولہویں صدی میں ملکہ میری کوئین آف اسکاٹس کے لکھے ہوئے پچاس سے زیادہ خفیہ خطوط حال ہی میں دریافت کر کے اُنہیں ڈی کوڈ کر لیا ہے۔
یہ خطوط اُنہوں نے انگلینڈ میں اپنی قید کے دوران لکھے تھے۔انہیں نیشنل لائبریری آف فرانس کے آن لائن آرکائیوز سے دریافت کیا گیا ہے۔اس دریافت کو اس موضوع پر سو برس کی اہم ترین پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کو ایک طویل عرصے تک ان خطوط کے وجودکے بارے میں شک تھا، مگر سمجھا جاتا تھا کہ یہ گم ہو گئے ہیں۔ یہ خطوط کمپیوٹرز کی مدد سے پڑھے گئے ہیں اور بہ ظاہر یہ میری کی جانب سے 1578 سے 1584 کے دوران لندن میں ملکہ الزبتھ اول کے دربار میں موجود فرانسیسی سفیر مشیل دی کیسٹلناؤ مویسیئغ کو لکھے گئے تھے۔
میری 1542 میں پیدا ہوئی تھیں اور 1568 تک اسکاٹ لینڈ کی ملکہ رہیں۔ وہ 1559 میں ایک سال کے لیے فرانس کی ملکہ بھی رہیں۔ ہینری ہفتم کی پڑپوتی ہونے کے ناطے وہ تختِ انگلستان کے لیے ایک مضبوط امیدوار تھیں اور کیتھولک فرقہ جُزوی طور پر ان کا یہ دعویٰ تسلیم کرتا تھا۔مگر ناکام شادیوں اور پے در پے غلط سیاسی اقدامات کی وجہ سے اُنہیں اسکاٹ لینڈ چھوڑنا پڑا اور اپنی زندگی کے آخری 19 برس اُنہوں نے اپنی کزن ملکہ الزبتھ اول کی قید میں گزارے۔ بالآخر آٹھ فروری 1587 کو انگریز ملکہ کے قتل کی سازش کرنےکے الزام میں ان کا سر قلم کر دیا گیاتھا۔ ان کے اس افسوس ناک انجام کی وجہ سے وہ کیتھولکس کے لیے ’’شہید‘‘ بن گئیں اور تب سے مؤرخین، ناول نگاروں اور فلم سازوں کو ان میں دل چسپی رہی ہے۔
کمپیوٹر سائنس داں جارج لاسری، پیانو نواز ناربرٹ بیئرمین، اور ماہرِ ایسٹروفزکس ستوشی توموکیو پر مشتمل ٹیم نے یہ دریافت کی۔ یہ تینوں ہی شوقیہ کرپٹو گرافرز ہیں اور ان کا ابتدائی خیال تھا کہ خفیہ الفاظ میں لکھی گئی یہ دستاویزات اٹلی سے تعلق رکھتی ہیں کیوں کہ فرانس کی قومی لائبریری میں ان کا اندارج ایسے ہی کیا گیا تھا۔ مگر انہیں فوراً ہی احساس ہو گیا کہ یہ خطوط فرانسیسی زبان میں لکھے گئے تھے۔
ان خطوط کی گرامر مؤنث الفاظ پر مشتمل ہے اور بار بار قید اور والسنگھم جیسے ناموں کے تذکرے کی وجہ سے ان کا شک ملکہ میری کی جانب گیا۔ فرانسس والسنگھم ملکہ الزبتھ کے جاسوسوں کے سربراہ تھے۔ یہ کوڈ ایک نہایت سادہ ’’ری پلیسمنٹ سسٹم‘‘ تھا جس میں کچھ ناموں، الفاظ اور حروف کے لیے علامات استعمال کی گئی تھیں۔مگر تمام امکانات کا تجزیہ کرنے میں کئی صدیاں لگ سکتی تھیں چناں چہ اس ٹیم نے ایسے الگورتھم کا سہارا لیا جو زیادہ ممکن جوابات فراہم کر سکتا تھا۔
یہ خطوط کئی طرح کے موضوعات پر مبنی ہیں۔ میری ان خطوط کے ذریعے فرانس میں اپنے حامیوں سے خفیہ طور پر بات چیت کر پاتی تھیں۔ یہ خطوط واضح طور پر بتاتے ہیں کہ قید کے دوران میری اسکاٹ لینڈ، انگلینڈ اور فرانس کے سیاسی معاملات کا بہ غور جائزہ لے رہی تھیں اور اس حوالے سے سرگرم تھیں۔ اس کے علاوہ ان کا الزبتھ اول کے دربار میں کئی اہم سیاسی شخصیات سے بھی باقاعدہ رابطہ تھا۔
یہ نئی دستاویزات بتاتی ہیں کہ میری بین الاقوامی امور کی ایک زیرک تجزیہ کار تھیں۔ یہ خطوط برطانوی، فرانسیسی اور یورپی مؤرخین اور طلبا کو اگلے کئی برسوں تک خفیہ تحریر نگاری کے رموز کو سمجھنے میں مصروف رکھیں گے۔